ہائپرلوپ؛ نقل و حمل کا نیا تیز رفتار ذریعہ
معاشرتی ارتقا میں سائنسی علوم کا کردار کلیدی رہا ہے، تمام شعبہ ہائے زندگی میں برپا ہونے والے انقلاب سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت ہی کے رہین منت ہیں اور یہ عمل مسلسل جاری ہے۔
دوسرے شعبوں کی مانند نقل و حمل کے شعبے میں بھی سائنس اور ٹیکنالوجی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلیوں کو جنم دیتی رہی ہے۔ زمانۂ قدیم میں نقل وحمل اور باربرداری کے لیے انسان کا انحصار اونٹ، گھوڑے، بیل، گدھے اور دوسرے مویشیوں پر تھا۔ صدیوں تک مویشی، انسان اور سامان کی ایک سے دوسرے مقام تک منتقلی کے لیے استعمال ہوتے رہے۔ دریاؤں اور سمندروں میں سفر کرنے کے لیے کشتیاں اور بحری جہاز ذریعہ بنتے رہے۔ ہزاروں برس تک یہی سلسلہ جاری رہا۔
نقل و حمل میں انقلابی تبدیلیوں کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا۔ 1804ء میں انگریز انجنیئر رچرڈ ٹریوتھک نے دُخانی انجن بنانے میں کام یاب حاصل کی۔ اس کے بیس برس بعد انگلستان میں پہلی مسافر بردار ریل گاڑی کے آغاز کی صورت میں نقل و حمل کے میدان میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس سے چند برس قبل جرمنی میں سائیکل بھی ایجاد کرلی گئی تھی۔
1885ء میں موٹرکار اور موٹرسائیکل بھی منظرعام پر آگئی۔ یوں انیسویں صدی میں نقل و حمل میں ایک انقلاب کا آغاز ہوا، سواری اور باربرداری کے مشینی ذرائع وجود میں آگئے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں ہوائی جہاز کی ایجاد کی صورت میں اس انقلاب نے ایک اور موڑ لیا، جس کے بعد انسان کے لیے خشکی پر اور فضا میں تیزرفتار سفر ممکن ہوتا چلاگیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نقل و حمل کے مشینی ذرائع بہتر سے بہتر ہوتے چلے گئے۔ شکل و صورت میں تبدیلی اور آرام دہ اور محفوظ بننے کے ساتھ ساتھ ان کی رفتار میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آج ہمیں آواز کی رفتار سے اڑنے والے ہوائی جہاز، انتہائی تیزرفتار ریل گاڑیاں ( بلٹ ٹرینیں )، ہوا سے باتیں کرنے والی کاریں اور موٹرسائیکلیں اور ہر طرح کی سہولتوں سے آراستہ بحری جہاز اور کشتیاں دکھائی دیتی ہیں۔
ذرائع نقل و حمل میں اب ایک اور انقلاب برپا ہونے والا ہے جس کی تیاریاں زورشور سے جاری ہیں۔ اس انقلاب کو ’’ ہائپرلوپ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ خشکی پر سفر کرنے کا تیزترین ذریعہ ہوگا۔ اس کے ذریعے مسافر زمینی راستے پر سفر کرتے ہوئے ہوائی جہاز کی سی تیزی کے ساتھ ایک سے دوسرے شہر پہنچ جایا کریں گے۔
ہائپر لوپ کی رفتار 1000 سے 1200 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہوگی۔ یعنی اس کے ذریعے مسافر کراچی سے لاہور صرف ایک گھنٹے میں پہنچ سکیں گے۔ تاہم پاکستان جیسے ملک میں ہائپرلوپ سسٹم کی تنصیب کا آنے والے سو سال میں بھی کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں تو اب تک بلٹ ٹرین شروع نہیں ہوسکی جو ترقی یافتہ ممالک میں کئی دہائیوں سے چل رہی ہے۔ نقل و حمل کے نئے نظام پر یورپ اور متحدہ عرب امارات میں عملی کام کا آغاز ہوچکا ہے، جب کہ جنوبی کوریا اور بھارت سے بھی ہائپرلوپ سسٹم کی تنصیب کرنے والی کمپنیوں کے مذاکرات ہوچکے ہیں۔
٭ہائپرلوپ کیا ہے؟
ہائپرلوپ نقل و حمل کا ایسا نظام ہے جس کے ذریعے مسافر، جہاز کی سی رفتار سے اپنی منزل پر پہنچ جایا کریں گے۔ یہ سسٹم چھوٹے چھوٹے ڈبوں یا پوڈز ( pods ) پر مشتمل ہوگا جو ایک طویل ٹیوب کے اندر سفر کرتے ہوئے ایک سے دوسرے شہر تک پہنچیں گے۔ اس ٹیوب کے اندر خلا ہوگا۔ ٹیوب میں کیپسول نما پوڈز اس کی سطح پر رکھے ہوئے نہیں ہوں گے اور نہ ہی ریل گاڑی کی طرح ٹیوب کے اندر بچھی کسی پٹری پر سفر کریں گے۔ یہ طاقت وَر مقناطیسی پروپلژن سسٹم کے ذریعے ٹیوب کی سطح سے اوپر ہوا میں رہتے ہوئے دباؤ کے ذریعے آگے کی سمت بڑھیں گے۔ ایک پوڈ کی چوڑائی نو فٹ ہوگی اور اس میں 28 سے 40 مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوگی۔
٭ہائپر لوپ کا تصور
مقناطیسی طاقت سے سفر کرنے والی انتہائی تیزرفتار ریل گاڑی کا تصور کوئی ایک صدی پرانا ہے۔ ہائپرلوپ کا تصور اسی مقناطیسی ریل گاڑی سے مشابہ ہے جو 2013ء میں امریکی کھرب پتی اور اسپیس ایکس اور ٹیسلا جیسی کمپنیوں کے مالک اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر ایلون مسک نے پیش کیا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ایلون نے اس تصور کو حقیقت کا رُوپ دینے میں عملاً کوئی دل چسپی نہیں لی لیکن ان کے خیال سے راہ نمائی لیتے ہوئے کئی کمپنیاں وجود میں آگئیں جو ہائپرلوپ کے منصوبوں پر کام کررہی ہیں۔
٭یورپ میں ہائپرلوپ
یورپ میں ذرائع نقل و حمل میں انقلاب کی ابتدا ہوچکی ہے جہاں آزمائشی بنیادوں پر براعظم کا پہلا ہائپرلوپ ٹریک بچھایا جارہا ہے۔ ٹریک بچھانے کے لیے فرانس کے شہر تولوز کا انتخاب کیا گیا ہے اور یہ کام امریکی کمپنی ہائپرلوپ ٹرانسپورٹیشن ٹیکنالوجیز انجام دے رہی ہے۔ گذشتہ سے پیوستہ ہفتے میں امریکی کمپنی کی تحقیقی ٹیم کو تولوز میں کم دباؤ والی ٹیوبس موصول ہوگئیں، جنھیں جوڑ کر ہائپر لوپ کا ٹریک یعنی ٹیوب نما سُرنگ بچھائی جائے گی۔
زلزلے اور موسمی اثرات سے حفاظت کے پیش نظر ہائپرلوپ کا ٹریک زمین سے کئی فٹ کی اونچائی پر ہوگا۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ستون تعمیر کیے جائیں گے اور ٹیوبس کو ان کے اوپر رکھ کر جوڑ دیا جائے گا۔ آزمائشی ٹریک کی طوالت 320 میٹر ہوگی۔ ٹریک کی تکمیل کے بعد ٹیوب کے اندر دوڑانے کے لیے مسافر پوڈ اسپین کی ایک کمپنی تیار کررہی ہے جو آخری مراحل میں ہے۔ ایچ ٹی ٹی کا کہنا ہے کہ دوسرے مرحلے میں آئندہ برس ایک کلومیٹر طویل ہائپرلوپ ٹریک تعمیر کیا جائے گا۔
٭ابوظبی میں ہائپرلوپ
اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہائپرلوپ کی دوڑ میں متحدہ عرب امارات امریکا اور یورپ پر بازی لے جائے۔ عرب ملک کی ریاست ابوظبی میں یہ نیا ذریعۂ نقل و حمل 2020ء میں عوام کے لیے دست یاب ہوسکتا ہے۔ ابوظبی میں ہائپرلوپ کا منصوبہ امریکی کمپنی ہائپرلوپ ٹرانپسورٹیشن ٹیکنالوجیز (ایچ ٹی ٹی ) مکمل کررہی ہے۔ عرب ریاست میں ایچ ٹی ٹی ابوظبی اور دبئی کی سرحد کے قریب واقع المخطوم انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب دس کلومیٹر طویل ٹریک بچھائے گی۔ اس ٹریک کا ایک حصہ دبئی میں Expo 2020 نامی نمائش کے انعقاد سے قبل مکمل کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ اصل منصوبہ کے مطابق ہائپرلوپ کی کُل لمبائی ایک ہزار کلومیٹر ہوگی اور اسے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض تک بچھایا جائے گا۔
امریکی کمپنی کے چیئرمین ببوپ گریسٹا کہتے ہیں کہ وہ ہائپرلوپ نیٹ ورک کے ذریعے مشرق وسطیٰ کے تمام شہروں کو ملانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ بہرحال اپنی نوعیت کے اس پہلے منصوبے کے تحت دبئی اور ریاض کو ابوظبی سے ملایا جائے گا۔ ان شہروں کے درمیان ہائپرلوپ کے ذریعے روزانہ ہزاروں مسافر سفر کرسکیں گے نیز سامان تجارت کی منتقلی بھی عمل میں آسکے گی۔
٭ہائپرلوپ پر تنقید
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ فولادی سرنگ میں متحرک ایک بالکل بند کیپسول میں سفر، جس میں کوئی کھڑکی بھی نہ ہو، ناخوش گوار اور خوف زدہ کردینے والا ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بند ٹیوب میں تقریباً آواز کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے پوڈز کے اندر بے پناہ شور اور ارتعاش پیدا ہونے کا امکان ہوگا۔ اس صورت میں مسافروں کے لیے اس بند ڈبے کے اندر چند منٹ گزارنا بھی خوف ناک تجربہ ثابت ہوسکتا ہے۔
علاوہ ازیں یہ بھی انتہائی مشکل ہوگا کہ دوردراز فاصلوں پر واقع شہروں کے درمیان ہائپرلوپ کا ٹریک بالکل سیدھا بچھایا جائے اور اس میں کوئی موڑ نہ ہو۔ کہیں نہ کہیں ٹریک میں موڑ تو آئے گا۔ انتہائی تیز رفتاری سے سفر کرتے ہوئے پوڈز جب اس موڑ سے گزریں گے تو اندر بیٹھے مسافروں پر مرکز گریز قوت عمل کرے گی اور ان کے لیے اپنی نشستوں پر بیٹھے رہنا مشکل ہوجائے گا۔ بیلٹ سے بندھے ہونے کے باوجود انتہائی زور سے لگنے والی یہ قوت ان کے جسم پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔ اس کے علاوہ کسی پُرزے کی خرابی، کسی حادثے یا ہنگامی صورت حال میں اخراج کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا؟ کیوں کہ ہائپرلوپ کا ٹریک یعنی ٹیوب تو پہلے سرے سے لے کر آخری سرے تک بالکل بند ہوگی۔
میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں ایروناٹکس اور اوسٹروناٹکس کے پروفیسر جون ہینسمین کہتے ہیں کہ ہائپرلوپ ٹریک کے ڈیزائن میں خامیاں ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیوب کا کوئی حصہ مستقل استعمال سے اگر اپنی اصل جگہ سے تھوڑا سا ہٹ جاتا ہے تو اسے کیسے درست کیا جائے گا؟ اس کے علاوہ ہوائی غلاف اور کم دباؤ والی ہوا کے درمیان ’ آنکھ مچولی‘ کا سدباب کیسے کیا جائے گا؟ پروفیسر جون نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر دوران سفر بجلی چلی جائے تو پھر اس کی بحالی کا کیا نظام ہوگا؟ کیلے فورنیا یونی ورسٹی میں طبیعیات کے پروفیسر رچرڈ ملر یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ ہائپرلوپ ٹریک دہشت گردوں کے لیے آسان ہدف ثابت ہوگا۔ وہ یہ سوال بھی اُٹھاتے ہیں کہ گرد اور مٹی کو ٹیوب میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے کیا انتظام کیا جائے گا؟
یہ تمام سوالات اپنی جگہ درست ہوں گے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایلون مسک کے پیش کردہ تصور کو حقیقت میں بدلنے کے لیے عملی کوششیں جاری ہیں۔ یورپ اور عرب امارات کے علاوہ اس ٹیکنالوجی سے جُڑی کئی کمپنیاں مختلف ممالک کے ساتھ معاہدے کرچکی ہیں۔ تاہم ابھی ان ملکوں میں ہائپرلوپ پر عملی کام کا آغاز نہیں ہوا۔ غالباً ان ممالک کی نگاہیں ابوظبی اور تولوز پر لگی ہوئی ہیں۔ ان شہروں میں کام یاب آزمائش کے بعد یکے بعد دیگرے مختلف جگہوں پر ہائپرلوپ پر کام کا آغاز ہوجائے گا، اور آئندہ چند برسوں کے بعد لوگ ایک نئے اور انتہائی تیزرفتار ذریعۂ نقل و حمل سے مستفید ہورہے ہوں گے۔