رنگ برنگ

گھر گھر جا کر دودھ بیچنے والا ایک غریب گوالا کس طرح پاکستان کا وزیر اعظم بنا ؟

حدیث کا مفہوم ہے کہ ’’محنت کرنےوالا اللہ کا دوست ہے ‘‘ اور جس کا اللہ دوست اسے زمانے کے غموں کا بھلا کیا غم ؟ ۔ محنت ایک ایسی چیز ہے جو اپنے کرنے والے کو کبھی مایوس نہیں کرتی ۔ میں نے اکثر لوگوں کو کہتے سنا کہ جناب ! محنت تو ہم ٹکا کے کرتے ہیں مگر اس کا پھل اس حساب سے نہیں ملتا ۔ ہم رہ جاتے ہیں وہی کے وہی ایک مڈل کلاس طبقے کےعام سے آدمی ۔ یہ باتیں اس قدر سننے کو ملیں کہ مجھے بھی لگنے لگا کہ شاید کارخانہ قدرت محنت کا صلہ بس اسی قدر دیا جا تا ہے مگر گزشتہ روز ایک معروف صحافی کے فیس بک پیج پر ایک تحریر پڑھی جو ہمارے ہی ملک کے ایک وزیر اعظم کا قصہ تھا ۔ وہ کون تھے؟ یہ آپ خود پڑھئیے ۔ تقریباً ایک صدی قبل یعنی20ستمبر1916ء کو لاہور کے ایک نواحی گاؤں میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ چاربہن بھائیوں میں یہ سب سے چھوٹاتھا۔ پوراگاؤں ان پڑھ مگر اسے پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔اس کے گاؤں میں کوئی سکول نہ تھالہٰذا یہ ڈیڑھ میل دور دوسرے گاؤں پڑھنے جاتا۔راستے میں ایک برساتی نالے سے اسے گزرنا پڑتا۔ چھٹی جماعت پاس کرنے کے بعد وہ 8میل دور دوسرے گاؤں میں تعلیم حاصل کرنے جاتا۔اس نے مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا۔مذید تعلیم حاصل کرنے لاہورآیا۔یہاں اس نے سنٹرل ماڈل سکول میں(جوکہ اس وقت کا نمبر 1سکول تھا) داخلہ لے لیا۔اس کا گاؤں شہر سے13کلومیٹر دور تھا۔ غریب ہونے کی وجہ اسے اپنی تعلیم جاری رکھنا مشکل تھی مگر اس نے مشکل حالات کے سامنے ہتھیار نہ پھینکے بلکہ ان حالات کے مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ اس نے تہیہ کیا کہ وہ گاؤں سے دودھ لے کرشہر میں بیچے گا اور اپنی تعلیم جاری رکھے گا چنانچہ وہ صبح منہ اندھیرے اذان سے پہلے اٹھتا۔ مختلف گھروں سے دودھ اکٹھا کرتا۔ڈرم کو ریڑھے پر لاد کر شہر پہنچتا۔ شہر میں وہ نواب مظفر قزلباش کی حویلی اور کچھ دکانداروں کو دودھ فروخت کرتا اور مسجد میں جا کر کپڑے بدلتا اور سکول چلا جاتا۔ کالج کے زمانہ تک وہ اسی طرح دودھ بیچتا اور اپنی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ اس نے غربت کے باوجود کبھی دودھ میں پانی نہیں ملایا۔بچپن میں اس کے پاس سکول کے جوتے نہ تھے۔ سکول کے لئے بوٹ بہت ضروری تھے۔ جیسے تیسے کر کے اس نے کچھ پیسے جمع کر کے اپنے لیے جوتے خریدے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اگر وہ گاؤں میں بھی جوتے پہنتا تو وہ جلدی گھِس جاتے چنانچہ وہ گاؤں سے والد کی دیسی جوتی پہن کر آتا اور شہر میں جہاں دودھ کا برتن رکھتا وہاں اپنے بوٹ کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دیتا اور اپنے سکول کے جوتے پہن کے سکول چلا جاتا۔ والد سارا دن اور بیٹا ساری رات ننگے پاؤں پھرتا۔ 1935 ء میں اس نے میٹرک میں نمایاں پوزیشن حاصل کی اور پھر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخلہ لیا۔ اب وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے گاؤں سے ریڑھی میں دودھ لاتا اور شہر میں فروخت کر دیتا۔اس کام میں کبھی اس نے عار محسوس نہ کیا۔ فرسٹ ائیر میں اس کے پاس کوٹ نہ تھا اور کلاس میں کوٹ پہننا لازمی تھا چنانچہ اسے کلا س سے نکال کر غیر حاضری لگا دی جاتی۔ اس معاملے کا علم اساتذہ کو ہوا تو انہوں نے اس ذہین طالبعلم کی مدد کی۔ نوجوان کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ 1939ء میں اس نے بی اے آنر کیا۔ یہ اپنے علاقہ میں واحد گریجویٹ تھا۔یہ نوجوان اس دوران جان چکا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی کام آسانی سے سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔ کامیابیوں اور بہترین کامیابیوں کے لیے ان تھک محنت اور تگ و دو لازمی عنصر ہے۔معاشی دباؤ کے تحت بی اے کے بعد اس نے باٹا پور کمپنی میں کلرک کی نوکری کر لی چونکہ اس کا مقصد اور گول لاء یعنی قانون پڑھنا تھا لہٰذا کچھ عرصہ بعد کلرکی چھوڑ کر قانون کی تعلیم حاصل کرنے لگا اور 1946ء میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کر لیا۔ 1950ء سے باقاعدہ پریکٹس شروع کر دی۔ اس پر خدمت خلق اور آگے بڑھنے کا بھوت سوار تھا۔ اس نے لوگوں کی مدد سے اپنے علاقے میں کئی تعلیمی ادارے قائم کیے۔ اس جذبہ کے تحت 1965ء میں مغربی پاکستان اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوا۔ پیپلزپارٹی کے روٹی‘ کپڑا اور مکان کے نعرے سے متاثر ہو کر اس میں شامل ہو گیا۔ 1970ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوا اور نواب مظفر قزلباش کے بھائی کو جن کے گھر یہ دودھ بیچتا کرتا تھا‘ شکست دی۔ 1971ء میں دوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ میں وزیر خوراک اور پسماندہ علاقہ جات بنا۔ 1972ء کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا۔ وزارت اعلیٰ کے دوران اکثر رکشے میں سفر کرتا۔ اپنے گورنر مصطفی کھر کے ساتھ نبھانہ ہونے کی وجہ سے استعفیٰ دے کر ایک مثال قائم کی۔ 1973ء میں اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کی۔ 1973ء میں وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور کا قلمدان سونپا گیا۔ 1976ء میں وفاقی وزیر بلدیات و دیہی مقرر گیا۔ دو دفعہ سپیکر قومی اسمبلی بنا اور 4 سال تک انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کا ریکٹر رہا۔ایک مفلس و قلاش ان پڑھ کسان کا بیٹا جس نے کامیابی کا ایک لمبا اور کٹھن سفر اپنے دودھ بیچنے سے شروع کیا اور آخر کار پاکستان کا وزیراعظم بنا۔ یہ پاکستان کا منفرد وزیراعظم تھا جو ساری عمر لاہور میں لکشمی مینشن میں کرائے کی مکان میں رہا۔ جس کے دروازے پر کوئی دربان نہ تھا۔ جس کا جنازہ اسی کرائے کے گھر سے اٹھا۔ جو لوٹ کھسوٹ سے دور رہا۔جس کی بیوی اس کے وزارت عظمیٰ کے دوران رکشوں اور ویگنوں میں دھکے کھاتی پھرتی۔ میرے قارئین اور ہم وطنو! ملک معراج خالد تاریخ کی ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ آپ 23 جون 2003 ء کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ ان کے ہم سے رخصت ہوئے 14 سال ہو گئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ ایسے افراد کو صدیوں تک یاد رکھتی ہے۔ یہ کسی کے ساتھ بے ایمانی نہیں کرتے۔ جس نے اپنا مقصد حیات انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کیا۔ جنہوں نے اپنے قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی۔ آج تاریخ پھر اس موڑ پہ ہے جہاں اسے ایسے باہمت و محب وطن رہنما کی ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button