گاندھی کو مذہب تبدیل کرنے سے کس نے روکا تھا
ایک دور تھا جب انھیں گجراتی میں ‘مہاتما نو مہاتما’ یعنی گاندھی کا مہاتما کہا جاتا تھا۔ شری مد راج چندر کو آج انڈیا کے لوگ ایک طرح سے بھول چکے ہیں۔شری مد راج چندر کو کئی لوگ جین مذہب کا 25 واں اوتار کہتے تھے، وردھمان مہاویر جین کو 24 واں اوتار کہا جاتا ہے۔گاندھی ان سے روحانی موضوعات پر مسلسل مشاورت اور خط و کتابت کیا کرتے رہتے تھے اور ان سے بہت بھی متاثر تھے۔گاندھی کی زندگی کی دو اہم باتیں، عدم تشدد اور برہم چاری، میں شری مد راج چندر کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔راج چندر عمر میں گاندھی سے دو برس بڑے تھے اور گاندھی کی ہی طرح ان کی بھی زبان گجراتی تھی۔ وہ موربی کے قریب ایک گاؤں میں ایک سنار خاندان میں نومبر 1867 میں پیدا ہوئے تھے اور بچپن سے ہی مذہبی رجحان رکھتے تھے۔انھوں نے خاندان کے دباؤ میں کچھ وقت تک موتیوں کا کاروبار کیا۔ ان کے رشتے دار چاہتے تھے کہ وہ ممبئی چلے جائیں لیکن وہ ایسا کرنے کو تیار نہیں ہوئے۔ان کی شادی 20 سال کی عمر میں ہوئی، جو اس دور میں کافی تاخیر ہونے والی شادی تھی۔ ان کے چار بچے بھی ہوئے لیکن ان کا پورا خیال روحانی باتوں کے راز کو سمجھنے میں ہی تھا۔گاندھی جی نے لکھا ہے کہ ان کی روحانی زندگی پر جن لوگوں نے سب سے زیادہ اثر ڈالا ان میں شری مد راج چندر بہت اہم تھے جنھیں گاندھی محبت سے رائے چند بھائی کہتے تھے۔راج چندر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں اپنے گذشتہ کئی جنموں کی باتیں یاد تھیں اور ان کی یادداشت بہت تیز تھی۔گاندھی اور راج چندر کی ملاقات 1891 میں ہوئی تھی اور وہ ان کے علم اور گہری سمجھ بوجھ سے بہت متاثر تھے۔ اس کا ذکر ان کی اپنی سوانح عمری ‘سچ کی تلاش’ میں بھی ملتا ہے۔کیمبرج یونیورسٹی پریس سے شائع ہونی والی ایک کتاب ‘گاندھی ایز ڈسائپل اینڈ منٹور’ میں تھامس ویبر نے لکھا ہے: ‘گاندھی کی زندگی میں ایک ایسا دور آیا کہ وہ عیسائی اور اسلام مذہب کے ماہرین کے قریب آئے
ان کے دماغ میں مذہب تبدیل کرنے کا خیال بھی آیا لیکن انھوں نے سوچا کہ پہلے اپنے مذہب کو مناسب طریقے سے سمجھنے کے بعد ہی وہ ایسا کوئی قدم اٹھائیں گے، اس دور میں روحانیت سے متعلق ان کے تجسس کے جوابات راج چندر دیا کرتے تھے۔’ ویبر نے لکھا ہے: ‘یہ راج چندر ہی تھے جنھوں نے گاندھی کو صبر کرنے اور دل کی گہرائیوں سے ہندو مذہب کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔گاندھی جب روحانی اور نظریاتی انقلابات سے گزر رہے تھے تو اس وقت شری مد راج چندر کے الفاظ سے ہی انہیں امن و سکون حاصل ہوا تھا۔گاندھی نے لکھا ہے: ‘انھوں نے مجھے سمجھایا کہ میں جس طرح کے مذہبی خیالات اپنا سکتا ہوں وہ ہندو مذہب کے اندر ہی موجود ہیں، آپ سمجھ سکتے ہیں کہ میرے ذہن میں ان کے لیے کتنی عقیدت ہے۔گاندھی نے اپنے دوست ہنری پالک کو راج چندر کے بارے میں لکھا تھا: ‘میں انھیں اپنے وقت کا بہترین بھارتی مانتا ہوں۔ویبر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ راج چندر نے ہی گاندھی کو سمجھایا تھا کہ وہ شادی شدہ رہ کر بھی برہم چاری (تجرد) کے فلسفے پر عمل کر سکتے ہیں۔ویبر نے اپنی کتاب میں ایسی ہی ایک خط و کتابت کا ذکر بھی کیا ہے جس میں راج چندر نے گاندھی کو دودھ پینے کی عادت کو چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا، ان کا کہنا تھا: ‘جانوروں کا دودھ پی کر حیوانی جبلتیں ختم نہیں ہو سکتیں۔20 اکتوبر 1894 کو گاندھی نے اپنے عزیز دوست ‘رائے چند بھائی کو ایک طویل خط لکھا جس میں روحانی تجسس سے پر 27 سوال پوچھے تھے، جیسے، روح کیا ہے؟ کیا کرشن بھکتی سے نجات مل سکتی ہے؟ عیسائيت کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ وغیرہ۔۔۔ 1901 میں 33 سال کی عمر میں شري مد راج چندر کا انتقال راجکوٹ میں ہوا اور گاندھی نے اسی سال فلسفہ تجرد کو اپنا لیا تھا۔