رنگ برنگ

کیا حضرت یوسف علیہ السلام نے زلیخا سے نکاح کیا تھا؟

سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ قرآن میں ان خاتون کا کوئی نام نہیں آیا۔ انکے لئے صرف عزیز مصر کی بیوی کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔تلمود میں ان خاتون کا نام زَلِیخا لکھا ہے اور وہی سے یہ نام اسلامی روایات میں مشہور ہوا۔ مگر یہ جو ہمارے ہاں عام شہرت ہے کہ بعد میں اس عورت سے یوسف ؑ کا نکاح ہُوا، اس کی کوئی اصل نہیں ہے،نہ قرآن میں اور نہ اسرائیلی تاریخ میں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک نبی کے مرتبے سے یہ بات بہت فروتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت سے نکاح کرے جس کی بدچلنی کا اس کو ذاتی تجربہ ہوچکا ہو۔ قرآن مجید میں یہ قاعدہٴ کلیہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اَلخَبِیثٰتُ لِلخَبِیثِینَ وَالخَبِیثُونَ للخَبِیثٰتِ وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِینَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبٰتِ۔بُری عورتیں بُرے مَردوں کے لیے ہیں اور بُرے مرد بُری عورتوں کے لیے۔ اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے۔
دراصل یہ ساری غلط فہمی یوسف علیہ السلام کیلئے لفظ عزیز کے استعمال سے پیدا ہوئی ہے جو کہ سورۃ یوسف آیت نمبر ۷۸ میں یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یوسف علیہ السلام کے لئے استعمال کیا ہے۔ صرف اس بنا پر مفسرین نےقیاس کر لیا کہ یوسفؑ اسی منصب پر مامور ہوئے تھے جس پر اس سے پہلے زلیخا کا شوہر مامور تھا۔ پھر اس پر مزید قیاسات کی عمار ت کھڑی کر لی گئی کہ سابق عزیز مر گیا تھا ، یوسفؑ اس کی جگہ مقرر کیے گئے ، زلیخا از سر نو معجزے کے ذریعہ سے جو ان کی گئی ، اور شاہ ِ مصر نے اس سے یوسفؑ کا نکا ح کر دیا۔ حد یہ ہے کہ شب عروسی میں یوسفؑ اور زلیخا کے درمیان جو باتیں ہوئیں وہ تک کسی ذریعہ سے ہمارے مفسرین کو پہنچ گئیں۔ حالانکہ یہ سب باتیں سراسر وہم ہیں ۔ لفظ "عزیز” مصر میں کسی خاص منصب کا نام نہ تھا بلکہ محض”صاحب اقتدار” کے معنی میں استعمال کیا جاتا تھا۔ غالبًا مصر میں بڑے لوگوں کے لیے اُس طرح کا کوئی لفظ اصطلاحًا رائج تھا جیسے ہمارے ملک میں لفظ”سرکار” بولا جاتا ہے۔ اسی کا ترجمہ قرآن میں "عزیز” کیا گیا ہے۔ رہا زلیخا سے یوسفؑ کا نکاح، تو اس افسانے کی بنیاد صرف یہ ہے کہ بائیبل اور تلمود میں فوطیفرع کی بیٹی آسناتھ سے اُن کے نکاح کی روایت بیان کی گئی ہے ۔ اور زلیخا کے شوہر کا نام فوطیفار تھا۔ یہ چیزیں اسرائیلی روایات سے نقل در نقل ہوتی ہوئی مفسرین تک پہنچیں اور جیسا کہ زبانی افواہوں کا قاعدہ ہے ، فوطیفرع بآسانی فوطیفار بن گیا، بیٹی کی جگہ بیوی کو مل گئی اور بیوی لامحالہ زلیخا ہی تھی ، لہٰذا اس سے یوسفؑ کا نکاح کرنے کے لیے فوطیفار کو مار دیا گیا ، اور اس طرح "یوسف زلیخا” کی تصنیف مکمل ہو گئی۔ اللہ ہمیں اپنے بر گزیدہ انبیاء کیلئے ایسی واہیات اور لغو کہانیوں کو گھڑنے اور سچ جاننے سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button