رنگ برنگ

کچرے کے ڈھیر سے ایدھی سنٹر تک

نصیراحمد ظفر ریذیڈنٹ ایڈیٹر
کراچی کے گنجان کاروباری علاقے میٹھادر میں واقع تین منزلہ عمارت کے ایک ہال نما کمرے میں دو بچے بال کے ساتھ کھیل رہے ہیں، ایک بچہ جو ہاتھ سے معذور ہے جھولے سے لطف اندوز ہو رہا ہے ان کے علاوہ دو بچے جو چلنے پھرنے سے لاچار ہیں زمین پر لیٹے لیٹے تمام بچوں کو کھیلتا دیکھ رہے ہیں۔
یہ تمام وہی بچے ہیں جنہیں والدین کچرے کے کسی ڈھیر یا ایدھی سینٹر کے جھولے میں چھوڑ گئے تھے اور اب یہ ایدھی فاؤنڈیشن کی گود میں پل رہے ہیں۔ گذشتہ چار دہائیوں میں ایسے 20 ہزار کے قریب بچوں کی پرورش کی گئی ہے۔ بعض مذہبی حلقوں کی مخالفت کے باوجود عبدالستار ایدھی نے بغیر کسی دباؤ کے ان بچوں کی تربیت کی اور جب انہیں شناخت کی ضرورت پڑی تو اپنا نام دیا۔
ایدھی کی سالگرہ پر گوگل کا خراج عقیدت
میٹھادر جو عبدالستار ایدھی کا گھر ہے، یہاں نومولود بچوں کی پرورش ہوتی ہے، لڑکے بڑے ہونے کے بعد دوسرے سینٹروں میں منتقل کیے جاتے ہیں جبکہ لڑکیاں 11 سال تک یہاں رہتی ہیں ان کے لیے یہاں بچیوں کا سکول بھی قائم ہے۔
شاہدہ قمر الدین کئی سالوں سے یہاں بطور ٹیچر فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ ان کے مطابق ’ایدھی صاحب کی موجودگی میں ایسا لگتا تھا کہ جیسے ان بچوں اور ہم پر باپ کا سایہ ہے، وہ ان بچوں کے ساتھ گھل مل جاتے ایسا لگتا تھا جیسے وہ ان کے سگے والد ہوں۔ بچے بھی ابو ابو کہہ کر ان سے لپٹتے دوڑتے پھرتے اور فرمائشیں کرتے تھے- ان کے بعد یہ کمی محسوس ہوتی ہے۔‘
عبدالستار ایدھی نے ایک دواخانے سے سماجی خدمت کا آغاز کیا تھا، ان کی رہائش گاہ کے زیریں حصے میں آج بھی دواخانہ اور دوسری منزل پر خواتین کا ہسپتال ہے، اس طرح ملک کے مختلف شہروں میں 300 ایدھی سینٹر موجود ہیں، جن میں لڑکیوں اور بزرگوں کا شیلٹر ہوم شامل ہیں، ان سب کی نگرانی ایدھی خاندان کرتا ہے۔
ایدھی
ملک کی کئی شخصیات عبدالستار ایدھی کی خدمت سے متاثر رہیں۔ نامور سرجن ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی بھی ان میں شامل ہیں، بقول ان کے ایدھی پاکستان میں پہلے آدمی تھے جنہوں نے رفاعی کام شروع کیا اور وہ یہ کام اپنے ہاتھوں سے کیا کرتے تھے، سڑی ہوئی لاشوں کو بھی اپنے ہاتھوں سے اٹھاتے تھے اس کے علاوہ پاکستان میں پہلی ایمبولینس سروس کی بنیاد بھی انہوں نے ڈالی تھی اگر کہیں کوئی حادثہ یا وبا پھیلتی تو وہ سب سے پہلے پہنچتے تھے۔
عبدالستار ایدھی کی وفات کے ایک سال بعد اس ادارے کے معاملات بظاہر خوش اسلوبی سے نمٹائے جارہے ہیں۔ لیکن کیا وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ عام لوگوں اور اداروں کا ایدھی فاؤنڈیشن کے ساتھ تعاون اور اعتماد برقرار رہے گا، اس پر فیصل ایدھی پرامید ہیں۔
’ایدھی صاحب ہم سب کی قوت تھے ان کے جانے کے بعد ہم خود کو تھوڑا کمزور محسوس کرنے لگے ہیں لیکن کام کا سلسلہ جوں کا توں جاری ہے، وہ اکثر کہتے تھے کہ یہ مردوں کو پوجنے والی قوم ہے، میرے مرنے کے بعد ایک بہت بڑی قبر بنائیں گے انہیں بنانے دینا کیونکہ جتنی بڑی قبر ہوگی اتنی بڑی چندے کی پیٹی ہوگی۔ اس سے ادارے کے خرچے چلتے رہیں گے۔‘
ایدھی فاؤنڈیشن کی باگ دوڑ ایدھی خاندان کے ہاتھوں میں ہے، کیا اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟۔ فیصل ایدھی اس میں مختلف شعبہ زندگی کے ماہرین کو شامل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
’ایدھی صاحب کے دور میں یہ ون مین شو تھا اور وہ اس کو فیملی ٹرسٹ قرار دیتے تھے، آگے جاکر ادارے کو بڑی منزلیں طے کرنی ہیں۔ اس لیے ہم اس میں ماہرین کو شامل کریں گے اور انہیں ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔ ادارے کا کنٹرول بھلے خاندان رکھے کیونکہ ادارے کو آگے لے جانے کے لیے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔‘
حالیہ رمضان میں کراچی اور لاہور میں ایدھی سینٹرز کی دو ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں ادارے کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے گئے جس کے باعث عطیات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔فیصل ایدھی اس کو سازش قرار دیتے ہیں۔
’رمضان کے آخری عشرے میں ان ویڈیوز کا نشر ہونا اور وائرل کرنا جن میں ماڈلز کو استعمال کیا گیا جنہیں لوگ دیکھنا چاہتے ہیں ایک منظم سازش تھی جس کا مقصد ہمارے چندے کو نقصان پہنچانا اور تنظیمی طور پر کمزور کرنا تھا جس میں وہ کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ ‘
ایدھی
فیصل ایدھی کے مطابق ایسے کئی سینٹرز ہیں جو ایدھی صاحب نے نہیں دیکھے تھے اور ایسے بعض سینٹرز انہوں نے نہیں دیکھے لیکن یہ سینٹر کام کرتے ہیں انہیں شکایات بھی آتی ہیں اور ایک طریقہ کار کے تحت ان شکایات کا ازالہ کرتے ہیں۔
عبدالستار ایدھی کی برسی پر خاندان کے علاوہ کسی سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر تقریب منعقد نہیں کی گئی، گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت نے ان کے نام سے ایک سکہ جاری کیا ہے اس کے علاوہ ایک سڑک اور سٹیڈیم ان کے نام سے منسوب کیے گئے۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں آج بھی ایدھی ایمبولینس سائرن بجاتی سڑکوں سے گذریں گی کچھ لوگ ان پر کچھ تحریریں لکھیں گے اور بابائے خدمت عبدالستارایدھی پر سرسری نظر ڈالیں گے اور آگے بڑھ جائیں گے۔ لیکن ایدھی کے پیغام ’میرا مذہب انسانیت ہے‘ کچھ ہی لوگوں کو یاد ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button