*کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر بم حملے میں 26 افراد جاں بحق: ’دھوئیں کے بادل چھٹے تو دیکھا کئی لوگ زمین پر گرے ہوئے تھے‘*
*بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں ریلوے سٹیشن پر ہونے والے ایک دھماکے میں 26 افراد جاں بحق اور 62 زخمی ہوئے ہیں۔*
*کیا اس دھماکے میں فوج کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا؟*
*بلوچ عسکریت پسند تنظیم کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری کیے گئے بیان میں دعویٰ کیا کہ ’آج صبح کوئٹہ ریلوے سٹیشن میں پاکستانی فوج کے ایک دستے پر فدائی حملہ کیا گیا۔ حملہ بی ایل اے کی فدائی یونٹ مجید بریگیڈ نے سرانجام دیا جس کی تفصیلات جلد میڈیا کو جاری کی جائیں گی۔‘*
*کوئٹہ کے ایس ایس پی آپریشنز محمد بلوچ نے ریلوے سٹیشن پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عام افراد کے ساتھ ساتھ فوجی بھی اس سٹیشن کو نقل و حمل کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ہلاکتوں اور زخمیوں میں فوجی اور سویلین دونوں شامل ہیں۔*
*کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر سعد بن اسد نے بی بی سی کے روحان احمد کو بتایا کہ اس دھماکے میں 12 سکیورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے، جن میں لیویز، ایف سی اور فوج کے اہلکار بھی شامل ہیں۔*
*تاحال پاکستانی فوج کی جانب سے اس واقعے کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔*
*یاد رہے کہ بلوچستان میں بی ایل اے کی جانب پاکستانی فوج اور اس کی تنصیبات کو ماضی میں بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جس میں 25 اور 26 اگست کی درمیانی شب تحصیل بیلہ میں ایف سی کیمپ پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔*
*’دھوئیں کے بادل چھٹے تو دیکھا کئی لوگ زمین پر گرے پڑے تھے‘*
ناصر خان کوئٹہ میں سرکاری ملازمت کرتے ہیں اور وہ اس دھماکے کے عینی شاہد ہیں۔
انھوں نے صحافی محمد زبیر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنے دوست کو ریلوے سٹیشن پر الوداع کہنے گیا تھا۔ ابھی ہم ریلوے سٹیشن کے اندر داخل ہی ہوئے تھے کہ اچانک زوردار دھماکہ ہوا۔ دھماکہ بہت شدید تھا اور ایک دم ہی ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دھوئیں کے بادل ہٹے تو میں نے سب سے پہلے اپنے دوست اور دوست نے مجھے دیکھا۔ خوش قسمتی سے ہم دونوں محفوظ تھے مگر ہم سے کچھ فاصلے پر ٹکٹ والی کھڑکی تھی، میں نے دیکھا وہاں کئی لوگ زمین پر گرے پڑے تھے۔‘
ناصر خان کے مطابق ریلوے کھڑکی کے ارد گرد کچھ اور لوگ بھی زمین پر پڑے ہوئے تھے ’کچھ لوگ چیخ رہے تھے اور کچھ مدد مانگ رہے تھے۔‘
’جو لوگ زخمی نہیں ہوئے ان میں سے زیادہ تر سکتے کے عالم تھے۔ کچھ لوگوں کی مدد کرنے کی بھی کوشش کر رہے تھے کہ اس اثنا میں ایمبولینس اور پولیس موقع پر پہنچ گئی۔‘
’وہاں کا منظر ناقابل بیان تھا، کئی لوگوں کی حالت بہت خراب تھی‘
ایک اور عینی شاہد محمد اسلم نے صحافی محمد زبیر سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ٹرین نے نو بجے روانہ ہونا تھا۔ میں تقریباً آٹھ بجے ریلوے سٹیشن پہنچ گیا تھا۔ جس ٹرین پر میں نے سفر کرنا تھا اس نے پلیٹ فارم نمبر ایک سے نو بجے روانہ ہونا تھا۔ اس وقت کافی لوگ موجود تھے۔ کچھ لوگ مسافر ہوں گے اور کچھ انھیں الوداع کہنے آئے تھے۔‘
محمد اسلم کے مطابق ’ابھی چونکہ ٹرین پلیٹ فارم پر نہیں لگی تھی تو میں تھوڑا سائیڈ پر کھڑا ہو گیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ میں چائے پی لوں اس غرض سے ٹائم دیکھا تو ابھی آٹھ بج کر بارہ منٹ ہوئے تھے۔ میں چائے والے کی طرف چلا تو یک دم ہی زوردار دھماکہ ہوا۔‘
محمد اسلم کا کہنا تھا کہ ’کئی سیکنڈ تک تو پتا ہی نہیں چلا اور سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا ہے۔ بس ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بہت سی لوگ زخمی تھے اور مجھے لگا کہ کافی لوگ بے حس بھی پڑے تھے۔ جن کے بارے میں میرا خیال تھا کہ وہ مر گئے ہیں۔‘
’وہاں کا منظر ناقابل بیان تھا، کئی لوگوں کی حالت بہت خراب تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں پہلی ایمبولینس دھماکے کے دس منٹ بعد پہنچی ہو گئی۔ جس کے بعد مزید ایمبولینس بھی پہنچنا شروع ہو گئی تھیں۔‘