کمپنی خسارے میں چل رہی تھی تو 12ملین درہم کا منافع کیسے ہوا “، سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی
اسلام آباد (نیوز وی او سی آن لائن آن لائن ) سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعظم کے صاحبزادوں حسن اورحسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے وقفے کے بعد اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ حسین نواز لندن فلیٹس کے بینی فشل اونر ہیں تاہم نواز شریف کا لندن فلیٹس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کے سامنے سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ یہ تسلیم شدہ ہے دبئی کی گلف فیکٹری 1973ءمیں قائم کی گئی تاہم قرض سے متعلق کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ۔ نئی کمپنی نے جب گلف فیکٹری کا انتظام سنبھالا تو خسارہ نہ تھا ۔ کلثوم نواز اس کیس میں فریق نہیں ان کے بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ۔میاں شریف کو لوہے کے کاروبار کا چار دہائیوں سے تجربہ تھا۔فیکٹریاں قومیائے جانے کے باعث 1973ءمیں دبئی کی رائل فیملی سے رابطہ کیا گیا ، دبئی کی رائل فیملی نے سٹیل پلانٹ لگانے کیلئے میاں شریف کو ویلکم کیا ۔1975ءمیں گلف سٹیل کے 75فیصد شیئر فروخت کیے ۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بظاہر تو کمپنی خسارے میں چل رہی تھی تو 12ملین درہم کا منافع کیسے ہوا ؟ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ نوازشریف لندن فلیٹس کے مالک نہیں ، آپ کو ثابت کرنا ہو گا کہ جائیدادیں آپ کی ہیں ۔2باتیں تسلیم شدہ حقیقت ہیں ، ایک آپکے موکل وزیرا عظم کے بیٹے ، دوسرے بینی فشنل اونر ہیں ۔الزام ہے لوٹی ہوئی رقم سے منی لانڈرنگ کی گئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حسین نواز کہتے ہیں وہ کمپنیوں کے بینی فشل مالک ہیں ، کیا کمپنیوں کے ریکارڈ تک رسائی حسین نواز کو ہے ؟ آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جائے ۔ گلف فیکٹری کب سے کمرشل طور پر آپریشنل ہوئی ؟ گلف فیکٹری کے لیے قرض کب لیا گیا ؟ بتایا جائے گلف فیکٹری کے لیے قرض کن شرائط پر لیا گیا ، قرض کس چیز پر لیا گیا یہ تو واضح ہی ہیں۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ گلف فیکٹری کی مکمل قیمت فروخت 33.375ملین دریم بنتی ہے ، فیکٹری کے واجبات کیسے ادا ہوئے بتایا جائے ۔ 1978ءمیں فیکٹری کے 75فیصد حصص فروخت کر کے بھی 15ملین واجبات باقی تھے ، کیا آپ کو کوئی اندازہ ہے کہ باقی واجبات کیسے ادا ہوئے ؟
سلمان اکرم راجہ نے موقف پیش کیا کہ درخواست گزاز کی استدعا ہے لندن فلیٹس لوٹی ہوئی رقم سے بنائے گئے اور یہ بھی الزام ہے کہ حسین نواز بے نامی دار ہیں اور اصل مالک نوازشریف ہیں ۔میرا موکل نیب ٹرائل کا ملزم نہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ قانون کی نظر میں جرم ثابت ہونے تک ملزم محصور ہوتا ہے ، درخواست گزار چاہتا ہے کہ لوٹی گئی رقم سے متعلق تحقیقات کی جائیں۔درخواست گزار کی استدعا میں تضاد ہے ، منی لانڈرنگ کا تعین آرٹیکل 184/3کے مقدمے میں نہیں ہو سکتا ۔ اس آرٹیکل میں عدالتی اختیارات وسیع ہیں اور دوسرے اداروں کا کام عدالت نہیں کر سکتی ، عدالت کے سامنے الزام لگانے والوں نے شواہد نہیں رکھے ۔ شواہد فراہم کرنا الزام لگانے والے کی ذمہ داری ہے ، ملزم الزام ثابت ہونے تک محصور ہوتا ہے ۔
سماعت شروع ہوتے ہی نیب نے اسحاق ڈار کی معافی سے متعلق ریکارڈ عدالت میں جمع کرا دیا ۔ وکیل شاہد حامد نے عدلت کو بتایا کہ اسحاق ڈار کی نااہلی کیلئے لاہو ر ہائیکورٹ سے درخواست اورانٹرا کورٹ اپیلیں خارج ہوئیں ، نواز شریف اور دیگر کے خلاف ریفرنس خارج کرنے کا معاملہ رپورٹ کیا جا چکا ہے
بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ فیصلہ میں ریفرنس خارج اور تفتیش نہ کرنے کا کہا گیا ؟ وکیل نے جوا ب دیا کہ دوبارہ تفتیش پر 2رکنی بینچ میں اختلاف تھا اسلئے فیصلہ ریفری جج نے سنایا ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ منی لانڈرنگ کسی میں ریفری جج کو اپنی رائے پر فیصلہ دینا تھا۔ آپ دلائل مکمل کرلیں پھر پراسیکیوٹر جنرل نیب سے پوچھیں گے۔ اسحاق ڈار کو مکمل معافی دی گئی ، اسحاق ڈار نے چیئرمین نیب کو معافی کی تحریری درخواست خود دی اور معافی کے بعد اسحاق ڈار ملزم نہیں رہے ۔جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان وعدہ معاف گوا ہ بننے کے بعد ریکارڈ ہوا، کیا وعدہ معاف گواہ بننے والے کی حفاظت کیلئے اسے تحویل میں کھا جاتا ہے ،بتایا جائے کیا بیان ریکارڈ کرانے والا مجسٹریٹ عدالت میں پیش ہواتو کیل نے بتایا کہ اس وقت نیب قوانین کے تحت مجسٹریٹ کا پیش ہونا ضروری نہیں تھا ۔ اسحاق ڈار پر منی لانڈرنگ کیس ختم ہو گیا اب صرف الزام کی بنیاد پر نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ یہ 25سال پرانا معامہ ہے جسے 13سے زائد ججز سن چکے ہیں ۔منی لانڈرنگ کے الزام کے وقت اسحاق ڈار کے پاس عوامی عہدہ نہیں تھا ۔نیب ریکارڈ کے مطابق اسحاق ڈار اب ملزم نہیں رہے۔ شاہد حامد نے بتایا کہ ہائیکورٹ کے 5ججز نے کہا کہ ایف آئی اے کو بیرونی اکاﺅنٹس تحقیقات کاا ختیار ہے۔