شہر شہرکراچی

کراچی صدر سے گرفتار تین ملزمان کے سنسنی خیز انکشافات

کراچی میں سی ٹی ڈی پولیس کے ہاتھوں صدر سے گرفتار 3 ملزمان نے دوران تفتیش ایکشن فلموں کے کرداروں جیسے سنسنی خیز انکشافات کئے ہیں۔

ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کے مطابق ملزمان سے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ سندھ کے ماہر پولیس افسران تفتیش کررہے ہیں، ملزمان نے پڑوسی ملک کے خفیہ ادارے کے ایماء پر ان کی حکومت کو مطلوب ایک پروفیسر سمیت متعدد افراد کو کراچی میں قتل، دہشت گردی اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث ہونے کاحکام کا دعویٰ ہے کہ ان ملزمان کی گرفتاری پاکستان میں بدامنی و انتشار پھیلانے کی سازش کو ناکام بنانے کی ایک کڑی ہے، ایڈیشنل آئی جی، سی ٹی ڈی ڈاکٹر ثناء اللہ عباسی نے "جنگ” کو بتایا کہ ڈی آئی جی، سی ٹی ڈی ثاقب اسماعیل میمن کی نگرانی میں ان کی ایک ٹیم نے گزشتہ ہفتے ایک کارروائی کے دوران تین ملزمان سیّد یوسف رضا شاہ، سید معصوم علی نقوی اور سید اکبر علی صغیر کو صدر سے گرفتار کیا تھا جو بظاہر عام نوعیت کے ملزمان تھے اور انہوں نے خود کو کالعدم تنظیم سپاہ محمد کے کارکن ظاہر کیا تاہم ان کے بارے میں جب خفیہ ادارے کی رپورٹس کی روشنی میں مخصوص طرز کی الگ الگ تفتیش کی گئی تو سنگین انکشافات سامنے آئے۔
تفتیشی حکام کے مطابق ملزم یوسف رضا اس گروہ کا سرغنہ ہے جو پڑوسی ملک سمیت دو خفیہ ایجنسیوں کیلئے کام کرتا رہا، ملزم جھنگ کے علاقے کوٹ عیسیٰ شاہ سے تعلق رکھتا ہے اور کراچی میں ابوالحسن اصفہانی روڈ کا رہائشی ہے، اردو، پنجابی، فارسی اور انگلش زبان کا ماہر ملزم متعدد بار افغانستان اور ایران آتا جاتا رہا ہے، ملزم پستول، کلاشنکوف اور جی تھری رائفل چلانے کا ماہر ہے، ملزم کے مطابق وہ اپنے والد کے علاج کیلئے 1984ء میں کراچی آیا تھا، والد کا انتقال ہوگیا تو وہ اپنے نانا عشرت کے پاس رہنے لگا، ان دنوں اُسے پڑوسی ملک کے مذہبی رہنما سیّد ابوالفضل کے پاس فارسی مترجم کی نوکری ملی، نوکری دلانے والے قریبی عزیز نے چند ہفتے بعد انکشاف کیا کہ درحقیقت اسے ایک خفیہ ادارے کی جانب سے مذکورہ رہنما پر نظر رکھنے کیلئے پرائیویٹ انٹیلی جنس ڈیوٹی پر لگایا گیا ہے، مذکورہ مذہبی رہنما سے ملنے کے لیے آنے جانے والوں کے علاوہ دیگر امور پر بھی نظر رکھنی ہوتی تھی، اس کا فرضی نام ’’مونی پرویز‘‘ تھا۔
ملزم کے مطابق 1994ء کے ماہ رمضان میں کلفٹن میں مذکورہ مذہبی رہنما کی گاڑی پر مسلح حملہ کیا گیا تو وہ زخمی ہوا جبکہ بہاؤالدینی بال بال بچ گئے، ملزم کے مطابق ان دنوں متعلقہ قونصلیٹ سے عمرانی نامی شخص بہاؤ الدینی سے ملنے کیلئے گھر پر آیا کرتا تھا، اس کے ادارے نے اسے عمرانی کی نگرانی پر بھی لگا دیا، ہدایت پر اس نے عمرانی سے گہرے مراسم پیدا کیے، ایک دن عمرانی نے اسے صدر میں واقع اپنے دفتر بلوایا اور خود کو غیر ملکی انٹیلی جنس کا افسر ظاہر کرتے ہوئے اپنے لیے مدد مانگی، ملزم یوسف کے بیان کے مطابق عمرانی نے اسے بتایا کہ وہ بہاؤ الدینی کی سکیورٹی پر مامور ہے اور یہ بھی کہا کہ اُن کے گھر پر جو لوگ آئیں اُن کے بارے میں اسے بھی آگاہ کرتا رہے، یوں وہ پڑوسی ملک کی انٹیلی جنس کیلئے بھی خفیہ کام کرنے لگا، ملزم کے مطابق ایک دن وہ بہاؤالدینی کے ساتھ قونصلیٹ کی ایک تقریب میں گیا ہوا تھا کہ پاکستانی سرکاری ادارے کے ایک اہلکار نے اس سے ہاتھ ملا کر خیریت پوچھی تو سب کو اس پر شک ہوگیا۔
یوں مارچ 1996ء میں بہاؤ الدینی نے اسے اچانک نوکری سے نکال دیا اور کوشش کے باوجود دوبارہ نہیں رکھا تو وہ آبائی شہر جھنگ چلا گیا جہاں ضلع کونسل کے سبزہ زار پر کراٹے سینٹر کھول لیا، کچھ عرصہ بعد اسے ادارے نے اسلام آباد بلا لیا اور سابقہ خفیہ کام کی تعریف کرکے اسے مزید کام کیلئے آمادہ کیا، ان کے پرانے دوست نے جہاد کے شوق کے پیش نظر کشمیر میں جہاد کرنے پر آمادہ کرلیا، تب وہ کوٹلی آزاد کشمیر روانہ ہوگیا اور مختلف اسلحے کی ٹریننگ حاصل کی جن میں گوریلا ٹریننگ، چھاپہ مار کارروائیاں شامل تھیں، وہ تین مرتبہ پڑوسی ملک کی آرمی سے لڑا، ایک حملے میں زخمی بھی ہوا، اسے تبلیغی شعبے کا امیر بنا دیا گیا، جنوری 2004ء میں پھر کراچی آگیا، سابقہ باس کی مدد سے نیٹو کنٹینر افغانستان لے جانے والی کمپنی میں ملازم ہوا اور فارسی آنے کی وجہ سے کمپنی نے اسے کابل دفتر بھیج دیا جہاں مدفون خزانہ نکالنے کی کوشش میں نایاب مورتیاں نکل آنے اور بٹوارے کے جھگڑے پر مخبری ہونے کی بنا پر افغانستان فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور 16 سال قید کی سزا ہوئی۔
ملزم کے بیان کے مطابق ریڈ کراس والوں کی مدد سے اس کی رہائی ہوئی تو جنوری 2010ء میں پھر کراچی آگیا، اب اسے لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کا سراغ لگانے کی ڈیوٹی پر جھنگ بھیج دیا گیا اور اداروں کو مطلوب کارکنوں کا سراغ لگا کر اُن کے نام اور فون نمبرز فراہم کئے، شک ہو جانے پر اسے واپس کراچی بلالیا گیا اور دوبارہ سابقہ کمپنی جوائن کرلی جس کے بعد وہ پھر افغانستان گیا اور اپنی کمپنی کھول کر کام شروع کردیا، 2013ء میں کابل سے کراچی آیا تو بہاؤ الدینی بلوالیا اور حاجی رضا سے ملاقات کروائی، رضا نے اپنا تعلق غیرملکی ایجنٹ کے طور پر کروایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے ملک کے کچھ مجرم پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں جنہوں نے سینکڑوں لوگوں کو قتل کیا ہے، وہ اب خفیہ طور پر اُن کے ملک آجا بھی رہے ہیں اور حالات میں گڑبڑ کر رہے ہیں، اُن پر نظر رکھنی ہے جس کے بعد اس کا اُن کے ملک کا ویزا بھی لگا دیا گیا اور اگلے دن وہ ان کے ملک کے دارالحکومت پہنچ گیا جہاں اس کی ملاقات 50 سالہ آغا سیّد سے کروائی گئی، ملزم کے مطابق آغا نے بھی اسے یہی کہا کہ انہیں پاکستان یا کسی ملک کے خلاف کام نہیں کرنا ہے بلکہ اپنے ملک کے مجرموں کو پکڑنا ہے جس کے بعد وہ کراچی آیا تو اسے منشیات کے اسمگلر اور 40 افراد سے زائد کے قتل کے ملزم حسن سالار زئی بلوچ اور اس کے دست راست لیاقت عرف حاجی محمد کی تصاویر دے کر انہیں ڈھونڈ نکالنے اور ٹھکانے لگانے کا ٹاسک دیا گیا، ملزم کے مطابق انٹیلی جنس افسر نے انہیں کلفٹن میں ان دونوں مطلوب افراد کے فلیٹ بھی دکھائے گئے۔
ملزم کے مطابق اس کام کیلئے اس کی تنخواہ ایک لاکھ روپے ماہوار طے ہوئی اور آنے جانے کے اخراجات الگ تھے، جس کے بعد اُسے اکبر رضوی سے ملوایا گیا، ملزم کے مطابق کلفٹن کے جس کثیر منزلہ جدید اور مہنگے ترین پروجیکٹ میں وہ دونوں مطلوب افراد رہائش پذیر تھے اس کے اندر جانا یا قریب بھٹکنا بھی مشکل تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ ساڑھے 3 ماہ تک ان دونوں کا سراغ لگانے یا ان تک پہنچنے میں ناکام رہے جس کے بعد اس کی ڈیوٹی ادارے کو مطلوب پروفیسر سلمان کی تلاش پر لگائی گئی، ملزم کے مطابق کام بڑھنے لگا تو انہوں نے وسائل مانگے جس پر اسے 25 لاکھ روپے کلفٹن میں ادا کیے گئے، ان میں سے 19 لاکھ روپے سے نئی گاڑی خریدی اور 5 لاکھ روپے اپنے ساتھی اکبر کو دیئے، ملزم کے مطابق بالآخر انہوں نے پروفیسر حسن کو کلفٹن میں تلاش کرلیا، وہ اپنے دوست کے ہمراہ ایک ہوٹل پر چائے پی رہا تھا، پروفیسر فارغ ہوکر اپنے فلیٹ کی طرف جانے لگا تو انہوں نے اسے گھیر لیا اور ہینڈز کرایا اور فائرنگ کردی جس سے پروفیسر حسن زخمی ہوا، اسے جناح اسپتال پہنچایا گیا جہاں اسے قتل کرنے کی بھر پور کوشش کی مگر ناکام رہے جس پر پروفیسر سلمان کو سولجر بازار کے فاطمید اسپتال شفٹ کردیا گیا۔
ایک ماہ بعد پروفیسر صحت یاب ہوکر اسپتال سے ڈسچارج ہوا تو انہیں اکبر اور حسن کی مدد سے اسپتال کے گیٹ پر ہی قتل کرا دیا جس کے بعد حاجی رضا نے اسے 3 لاکھ روپے دیئے جوکہ اکبر کو گھر جاکر دیئے جس پر حاجی رضا نے حسن سالار زئی اور لیاقت والے ٹاسک اکبر کے حوالے کردیئے، ملزم کے مطابق پروفیسر سلمان کے قتل کے بعد حاجی رضا نے اسے دو دریا کلفٹن بلوایا اور مزید کئی ٹارگٹ دئیے تاہم کچھ عرصے بعد ہی اسے بلوچستان کے مختلف شہروں کی ذمے داری دے دی گئی اور کراچی کے ٹارگٹ اکبر، حسن اور دیگر ملزمان کرتے رہے، پولیس حکام کے مطابق گرفتار دیگر دو ملزمان معصوم نقوی اور اکبر صغیر نے بھی تفتیش کے دوران سنگین نوعیت کے انکشافات کئے ہیں جن کی تصدیق کی جارہی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button