کتب فروشی پر دہشت گردی کی سزا
کالم:- منور علی شاہد۔جرمنی
سوشل میڈیا پر کچھ عرصہ قبل ایک پیٹیشن کو بہت پذیرائی ملتی رہی ہے جس میں وزیراعظم پاکستان سے پرزور مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ایک 81سالہ احمدی پاکستانی چشمہ و کتب فروش کو دہشت گردی کی عدالت سے دی جانے والی آٹھ سالہ قید کی سزا پر فی الفور نظر ثانی کروائیں اور ان کو رہا کیا جائے ۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ ربوہ میں اپنی جماعت کی شائع کردہ کتب احمدیوں کو فروخت کرتے تھے۔
پٹیشن میں دو ویڈیوز کے لنکس بھی موجود ہیں جن میں ایک ویڈیو میں عبد الشکور بھائی المعروف شکور بھائی چشمے والے کی دوکان کی تلاشی ہوئےدکھایا گیا ہے۔ جبکہ دوسری ویڈیو میں ان کی گرفتاری دکھائی گئی ہے۔ پٹیشن میں مزید کہا گیا تھا کہ یہ عدالتی فیصلہ انسانی حقوق کی بدترین پامالی کے مترادف ہے ۔ پیٹیشن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ عبدالشکور بھائی کو فوری انصاف مہیا کرکے ان کو رہا کیا جائے۔اس پٹیشن کے علاوہ بھی سوشل میڈیا پراس ایشو پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملتا رہا لیکن سب کچھ بےسود رہا اور ملائیت غالب رہی۔
مزید تحقیق کرنے پر اس کیس کے بارے میں جو مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق2 دسمبر2015 کو ا ن کے اورغیر احمدی ملازم کے خلاف مقدمہ تھانہCTD فیصل آباد میں زیر دفعہ9/11 WATA,298Cدرج ہوا اور اس کے ساتھ ہی گرفتاری بھی عمل میں آئی۔ ٹھیک ایک ماہ بعد ہی دو جنوری2016 کوانسداد دہشت گردی کورٹ کے جج راجہ اختر پرویز نے عبد الشکور کو مجموعی طور پر دونوں دفعات کے تحت8 سال جبکہ ان کے غیر احمدی ملازم ہے کو پانچ سال کی قید سنائی۔ اب دونوں فیصل آباد جیل میں ہیں ۔ شکور بھائی کا بنیادی کاروبار عینکوں کا ہے جو انہوں نے سرگودھا میں شروع کیا تھا۔ 1974میں پاکستان میں احمدیوں کے خلاف ملک گیر مہم کے دوران ان کی دوکان بھی نذرآتش کر دی گئی اور وہ ربوہ شفٹ ہو گئے۔ ربوہ کے معروف گو ل بازار میں ایک دوکان میں چشموں کا کاروبار شروع کردیا ۔ پھر آہستہ آہستہ اپنی دوکان پر اپنی کمیونٹی کی کتابیں بھی دیگر کتابوں کے ساتھ فروخت کرنا بھی شروع کردیں۔ ان میں ادب، تاریخ، سائنس، شاعری کی کتابیں بھی شامل ہیں۔
ایک ماہ کے اندر اندر دہشت گردی کی عدالت کے اس برق رفتار فیصلہ سے محسوس ہو رہا ہے کہ یہ فیصلہ مکمل طور پرتنگ نظری اور تعصب پر مبنی ہے جو ملائیت کی خوشنودی کے لئے کیا گیا ہے ا۔ س فیصلے میں انصاف کے تمام تقاضوں اور اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ کتابوں کی فروخت کو دہشت گردی کا درجہ دے دیاگیا ہے ۔عبدالشکور کے خلاف اس سے قبل بھی مقدمات ہوتے رہے ہیں۔ انہیں 1986کے بعد سے اب تک پانچ بار مختلف مقدمات میں ملوث کیا گیا۔ دو میں ان کو سزائیں بھی ہوئیں۔ حالیہ مقدمہ میں کتابوں کی ٖفروخت پردہشت گردی کی دفعات لگا کر سزا سنائی گئی ہے۔ اور اس وقت شکور صاحب کی عمر81 برس سے کچھ زائد ہی ہے اور وہ سنئیر شہری کا درجہ رکھتے ہیں. اس فیصلہ نے محب وطن اور باشعور پاکستانیوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر کب تک یہ ناانصافی ہوتی رہے گی۔ کیا احمدیوں کو کبھی بطور پاکستانی انصاف ملے گا۔
پشاور میں آرمی پبلک سکول کا مقدمہ بھی ایک سال تک چلا تھا جس میں 132بچوں سمیت145 افراس شہید کر دئے گئے تھے۔ لیکن اس معاملہ میں ایک ماہ سے میں ہی کتابوں کی فروخت پر دہشتگردی کے تحت سزا دے دی گئی۔ اس مقدمہ نے پوری طرح واضح کردیا ہے کہ اس ملک میں اب عدلیہ مکمل طور پر ملائیت کی جھولی میں پناہ لے چکی ہے ۔ وہ ان سینکڑوں مولویوں کے سامنے بے بس اور لاچار نظر آتی ہے جو مقدموں کی کاروائی کے دوران عدالت کے احاطہ میں جمع ہو کر نعرے بازے کر کے ججوں کو دباو میں لاتے ہیں۔ اور اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں۔ اس مقدمہ کے آغاز ہی میں بد نیتی اور مذہبی تعصب پوری طرح کھل کر سامنے آگیا تھا۔ ایک مذہبی تنظیم کی طرف سے کاروائی کرنے والے پولیس افسر کے لئے استقبالیہ بینرز جگہ جگہ آویزاں کئے گئے تھے۔
پاکستان میں احمدیوں بارے سرد مہری کی پالیسی ہر حکومت نے اپنائے رکھی ہے خواہ وہ فوجی ہو، نگران یا جمہوری حکومت ہو۔ 14اگست 1973کو موجودہ آئین کی منظوری کے بعد4مئی 1974پہلی آئینی ترمیم ہوئی جس کا تعلق پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں سے تھا اور مشرقی پاکستان کے لفظ کو حدف کیا گیا۔ اس کے چار ماہ بعد ہی سات ستمبر کودوسری ترمیم کی گئی جس کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔ دس سال بعد26اپریل1984کو اس وقت کے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے امتناع قادیانی آرڈینس جاری کیا ۔ اس کے تحت احمدیوں سے ان کی تمام مذہبی آزادیاں چھین لی گئیں۔ اس قانون کے تحت احمدیوں کے لئے کلمہ طیبہ پڑھنا، لکھنا، بسم اللہ اور دیگر قرآنی آیات پڑھنا لکھنا، عبادت گاہ کو مسجدکہنا وغیرہ سب قابل تعزیر جرائم قرار دے دیئے گئے ۔ خلاف ورزی کی صورت میں قید اور جرمانے کی سزائیں مقرر ہیں۔ اس وقت تک ہزاروں احمدی جن میں عورتیں، بچے ، بوڑھے اور جوان سبھی شامل ہیں، اس قانون کی زد میں ہیں۔ ہزاروں کو سزائیں مل چکی ہیں۔ یہ قانون اب مولویوں کے ہاتھ میں احمدیوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ عبدالشکور اسی قانون کا نیا شکار ہے، جس کو احمدیہ مخالف تنظیم نے استعمال کیا ہے۔ اسی قانون کا شکار روزنامہ الفضل کے پرنٹر پبلشر طاہر مہدی اور امتیاز احمد وڑائچ بھی ایک سال سے پابند سلاسل ہیں۔ ان کا کیس بھی مذہبی سیاسی دباؤ کا شکار ہے ۔اس قانون کے تحت زندہ احمدی تو مولویوں کے رحم کرم پر ہیں ہی، لیکن انتقال کرنے والے احمدی بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں ہیں ۔ قبرستانوں میں مدفون احمدیوں کی بار بار بے حرمتی بھی اسی قانون کے تحت ہو رہی ہے۔
اس قانون کے نفاذ پر اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام بڑے بڑے اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی بدترین خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ پاکستان کے اندر بھی اس کے خلاف آواز بلند ہوئی تھیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رکن اور بھٹو کے دیرینہ ساتھی ڈاکٹر مبشر حسن قومی اسمبلی کے اس فیصلے کے بارے میں مختلف چینلزز پر اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ بھٹو کا احمدیوں کے بارے میں فیصلہ ایک سیاسی فیصلہ تھا ، جو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے کیا گیا تھا۔ ضیاء الحق کے فیصلے بارے میں بھی واضح ہو چکا ہے کہ وہ اس فیصلے کے نتیجہ میں کس کو کیا فائدہ پہنچانا چاہتا تھا۔ اس کا نتیجہ اس آمر کے دیگر سیاہ فیصلوں کے طرح اب پوری قوم بھگت رہی ہے