کالا باغ ڈیم، فوائد اور اعتراضات ( حصہ دوم )
اعتراضات
اس منصوبہ کے مخالفین نے اس ڈیم سے حاصل ہونے والے بیش بہا فوائد کی نسبت اس کے ممکنہ نقصانات کو خوب اجاگر کیا نتیجے میں رائے عامہ اس کے خلاف ہوگئی۔
کے پی کے میں مخالفت کرنے والوں کو حال یہ ہے کہ کے پی کے کے اکثر لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ ڈیم دراصل بننا کہاں پر ہے!
سندھ کا حال یہ ہے کہ وہاں کے اکثر لوگ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ ” پنجاب پانی سے میں ساری بجلی نکال لے گا جس کے بعد ہمار پاس صرف پھوک رہ جائیگی”
( گنے سے رس نکل جائے تو جو بچتا ہے اس کو پھوک کہتے ہیں 🙂 )
ڈیم پر سنجیدہ نوعیت کے اعتراضات مندرجہ ذیل ہیں۔
الف ۔۔۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے کالا باغ بند پر تین بڑے اعترضات ہیں،
1۔ بجلی پیدا کرنے والےٹربائن اور تعمیرات پنجاب میں واقع ہوں گی۔ اس لیے صوبہ پنجاب وفاق سے پیدا ہونے والی بجلی پر رائلٹی کا حقدار تصور ہو گا۔
اس اعتراض کے جواب میں صوبہ پنجاب نے وفاقی رائلٹی سے مکمل طور پر دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا۔
2۔ ضلع نوشہرہ کا بڑا حصہ ڈوبنے کا خطرہ ہے اور کچھ علاقے بنجر ہونے کا خدشہ ہے۔
جنرل ضیاء کے دور میں ڈیم کی اونچائی کم کی گئی جس کے بعد اے این پی کے ولی خان کا اس پر اعتراض ختم ہوگیا تھا۔
ایک دلچسپ بات یہ بھی نوٹ کیجیے کہ میانوالی جہاں یہ ڈیم بننا ہے سطح سمندر سے 688 فٹ بلند ہے جبکہ نوشہرہ کی سطح سمندر سے بلندی 889 فٹ ہے۔
ڈیم کی تعمیر سے کل 27500 ایکڑ رقبہ زیرآب آئے گا جس میں سے 24500 ایکڑ رقبہ صوبہ پنجاب سے اور صرف 3000 ایکڑ رقبہ صوبہ خیبر پی کے میں واقع ہے۔
لہذا یہ اعتراض بے بنیاد ہے۔
جہاں تک زمین بنجر یا سیم تھور کے مسئلے کا خطرہ ہے تو بڑے پیمانے پر پانی کی نہریں اور ٹیوب ویل کھود کر باآسانی حل کیے جا سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ڈیم کی تعمیر سے سیم اور تھور کے مسائل پیدا نہیں ہوں گے کیونکہ پانی کی موجودہ سطح نوشہرہ سے دس میل نیچے کی جانب برقرار ہے۔
3۔ کچھ آبادی کو نقل مکانی کرنی ہوگی۔
تو یہ تو ہر ڈیم کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب کہ نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت پنجاب سے ہوگی۔ لیکن اجتماعی مفاد کے لیے قومیں ہمیشہ انفرادی طور پر قربانیاں دیتی ہیں۔
فوجی اپنا پورا خاندان بے آسرا چھوڑ کر جان دیتا ہے تو ہمارے خاندان محفوظ ہوتے ہیں۔
حضرت عمر کے دور میں ایک شخص اپنی زمین پر سے پانی گزرنے نہیں دے رہا تھا اور اعتراض کر رہا تھا کہ میری زمین خراب ہوگی۔ حضرت عمر کو علم ہوا تو آپ سخت طیش میں آئے۔ آپ نے فرمایا کہ ” یہ تو تمھاری زمین ہے اگر تمھارا پیٹ کھود کر یہ پانی اس میں سے گزارنا پڑے تو بھی میں گزار لونگا”
ب ۔۔۔ صوبہ سندھ نے سب سے پہلے کالا باغ منصوبے کی مخالفت کی۔
اس کا تمام تر اعتراض نام نہاد سول سائیٹی اور چند قوم پرستوں کا دیا گیا یہ نظریہ ہے کہ ” پنجاب ہمارا پانی چوری کرتا ہے ” ۔۔۔۔
لیکن آج تک اس ” چوری ” کو ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔ وہ قوم پرست عناصر منگلہ اور تربیلا ڈیموں کو بھی چوری ہی قرار دیتے ہیں جن پر اس وقت پورا پاکستان چل رہا ہے۔
دراصل نام کی مناسبت سے سادہ لوح سندھی عوام کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونسی گئی ہے کہ پنجاب اور کے پی کے سے بہہ کر آنے والا دریائے سندھ دراصل تمھارا ہے۔
اپنے اس بے بنیاد اعتراض کی قیمت سندھ اپنی زرعی زمین کی تباہی کی صورت میں ادا کررہا ہے جس کی ان قوم پرستوں کو قطعاً کوئی پروا نہیں جنہوں نے عام سندھی عوام کو بہکایا ہے۔
صوبہ سندھ کی باقی تمام ذیلی اعترضات اس بنیادی اعتراض سے جڑے ہیں کہ صوبے کا پانی کم ہوجائیگا جس کے نتیجے میں فلاں فلاں مسئلہ ہوگا۔
پہلی بات یہ کہ ڈیم کی تعمیر سے 1991ءکے معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں ہوگی کیونکہ اس میں صوبوں کےلئے پانی کا حصہ مقرر ہے۔
ڈیم کی تعمیر کے بعد بھی سمندر میں 10 ملین ایکڑ فٹ پانی گرتا رہے گا۔
لیکن ڈیم کی تعمیر سے سندھ کا اضافی 8 لاکھ ایکڑ رقبہ سیراب ہوگا۔
انڈین ڈیموں کی تعمیر کے نتیجے میں دریائے سندھ میں کم ہوتے ہوئے پانی اور پورے پاکستان سمیت سندھ میں بتدریج قدم جماتی خشک سالی کا مستقل خاتمہ ہوجائیگا۔
ج ۔۔۔ بلوچستان کا اعتراض
بلوچستان کسی بھی صورت کال باغ ڈیم سے متاثر نہیں ہوگا۔ بلکہ بلوچستان میں تعمیر ہونے والے کچی کنال نہر کو اپنے حصے سے اضافی پانی ملنا شروع ہوگا۔ نیز بلوچستان کا کم از کم 7 لاکھ ایکڑ رقبہ سیراب ہوگا۔
بلوچستان کا اعتراض دراصل ان قوم پرستوں کا اعتراض ہے جو پاکستان سے علیحدگی کی تحریکیں چلا رہے ہیں ان کو موقف ہے کہ کالاباغ ڈیم سے ان کو براہ راست کوئی نقصان نہیں لیکن چونکہ سندھ جیسا چھوٹا صوبہ اس ڈیم سے متاثر ہو رہا ہے اس لیے ہم علامتی طور پر ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جب کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ سندھ کا اعتراض بھی مقامی بلیک میلر قسم کے سیاست دانوں اور قوم پرستوں کا ڈھکوسلہ اور قطعاً بے بنیاد ہے۔
کالاباغ ڈیم کے مخالفین کی نیک نیتی جانچنی ہو تو صرف یہ دیکھ لیں کہ ان میں سے کسی ایک نے بھی انڈیا اور افغانستان کے پاکستانی دریاؤوں پر تعمیر کردہ کسی ڈیم پر کبھی اعتراض نہیں کیا جو پاکستان اور خود ان کو ایک یقینی تباہی سے دوچار کر رہے ہیں۔
انڈیا اور افغانستان کے معاملے میں اس نام نہاد سیاسی اشرافیہ اور قوم پرستوں کی بولتی بند ہوجاتی ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلا حصے میں ان شاءاللہ اس ڈیم کے نہ بنانے کے نقصانات پر بات کرینگے۔
تحریر شاہدخان