ایڈیٹرکاانتخاب

کاغذات نامزدگی میں کیا کچھ ظاہر نہیں کرنا ہوگا

اسلام آباد…اس مرتبہ کاغذات نامزدگی میں امیدواروں کو کیا کچھ ظاہر نہیں کرنا ہوگا۔2013کے عام انتخابات کے برعکس اس مرتبہ قرضوں، بلوں کی ادائیگی، شریک حیات، کاروبارکی تفصیلات، تعلیم اورموجودہ پیشے کی تفصیلات فراہم کرنا ضروری نہیں ہے اس کے علاوہ این ٹی این، غیر ملکی سفر، حلقوں میں کیے گئے کام، سیاسی فنڈز، اثاثوں اور غیر ملکی شہریت کی تفصیل بھی لازمی نہیںہوگا۔تفصیلات کے مطابق،شفافیت اور احتساب کی قیمت پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ کے کاغذات نامزدگی میں ترامیم کے حوالے سے سنائے گئے فیصلے کو معطل کرکے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو سکون کی سانس لینے کا موقع فراہم کردیا ہے۔گزشتہ برس اکتوبر میں تمام پارلیمانی جما عتو ں نے کاغذات نامزدگی میں سے تقریباً19 ڈیکلیئر شینزکو ختم کیا تھا ،جس میں اہم مالی امور ، قرضوں، ٹیکس چوری، فوجداری مقدمات اور کاروباری مفادات سے متعلق معلومات کی ضرورت تھی۔اس سے قبل کاغذات نامزدگی میں تبدیلی الیکشن کمیشن آف پاکستان کا اختیار تھا۔حبیب اکرم نامی صحافی نےگزشتہ برس نومبر میں ان ترامیم کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔سات ماہ بعد اعلیٰ عدالت نے جمعے کے روز کاغذات نامزدگی میں ترامیم کی ہدایت کی۔جسٹس عائشہ اے ملک نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ زیر اعتراض فارم میں آئین اور قانون کے تحت ضروری معلومات اور ڈیکلیئریشنز نہیں ہیں۔اسی سبب انہوںنے لکھا تھا کہ ضروری کا مطلب یہ ہے کہ ووٹر کے پاس ضروری معلومات نہیں ہوں گی جس کی بنیاد پر معلوماتی فیصلہ کیا جاسکے۔چوں کہ سپریم کورٹ امتناع دی چکی تھی اور اس مسئلے پر تفصیلی بات چیت کے بعد ہی فیصلے کیے جاسکتے ہیں، چاہے پارلیمنٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے شفاف انتخابات کا انعقاد کرائے جو کہ ووٹرز کی امیدواروں سے متعلق معلومات تک رسائی پر قدغن لگا کر ممکن نہیں ہے۔درج ذیل وہ معلومات ہیں جو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے امیدواروں کو فراہم نہیں کرنا ہوں گی ، جو کہ 2013کے انتخابات میں فراہم کرنا ضروری تھی۔پارلیمنٹ کی جانب سے کاغذات نامزدگی میں کی جانے والی تبدیلیوں کے مطابق، امیدوار کو اس بات کا اقرار نہیں کرنا ہوگا کہ وہ قرض دہندہ ہے یا نہیں یا پھر اس نے یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی کی ہے یانہیں۔ماضی کی ضروریات کے برعکس اس مرتبہ یہ استثنا دیا گیا تھا۔2013کے انتخابات میں امیدوار کو ایک ضروری حلف نامے پر دستخط کرنا ہوتے تھے۔حلف نامے کے مطابق، میں اپنی بہتر معلومات کے تحت حلفیہ اس بات کا اقرار کرتا ہوں اور یہ یقین رکھتا ہوں کہ ،1۔20لاکھ روپے یا اس سے زائد کا کسی بھی بینک، مالیاتی ادارے، کو آپریٹیو سوسائٹی یا کارپوریٹ ادارے سے میں نے اپنے نام یا اپنی شریک حیات کے نام پر یا مجھ پر منحصر کسی بھی شخص کے نام پر قرضہ نہیں لیا ہےیا پھر میرے نام پر یا درج بالا افراد کے نام پر کاروبار مقررہ تاریخ سے ایک سال کے زائد عرصے تک واجب الادا نہیں ہےاور تحریری طور پر ایسا قرضہ لیا ہو، اور میں ، میری شریک حیات یا میری کسی بھی بیٹی یا کاروبار سے متعلق جو میری یا درج بالا افراد کی ملکیت ہو، اس پر حکومتی ادائیگیاں یا یوٹیلیٹی چارجز جس میں ٹیلی فون، بجلی ، گیس اور پانی کے بل جس کی مالیت 10ہزار روپے سے زائد ہو،کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے چھ ماہ قبل تک واجب الادانہیں ہیں۔اس میں شریک حیات، وابستہ افراد اور کاروباری مفادات سے متعلق معلومات نہیں ہیںیعنی امیدوار کو اپنی شریک حیات اور وابستہ افراد سے متعلق اقرار کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ایسا کئی مرتبہ ہوا ہے کہ جب امیدوار وں کی ایک سے زائد ازواج تھیں۔کسی بھی قسم کی غلط بیانی سے وہ نااہل ہوسکتے تھے۔اسی طرح ان سے وابستہ افراد کے کاروباری ملکیت کا بھی اقرار حلف نامے پر کیا جاتا تھا ، جس میں اس طرح کہا جاتا تھا کہ میں حلفیہ طور پر اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ ،1۔فراہم کردہ فہرست میں میری شریک حیات اور مجھ سے وابستہ افراد کے جو نام دیئے گئے ہیں وہ درست ہیں اورکوئی نام باقی نہیں ہے(فہرست منسلک ہوگی)، 2، میں، میری شریک حیات اور مجھ سے وابستہ افراد کی ملکیت میں سوائے درج ذیل کے کوئی بھی کمپنی نہیں ہے۔اسی طرح امیدوار کو اپنے ماضی سے متعلق بھی معلومات فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔2013کے انتخابات میں امیدوا رو ں کو ایک حلف نامے پر دستخط کرنا ہوتے تھے اور اس سے متعلق معلومات فراہم کرنا ہوتی تھی ۔اس حلف نامے میں درج ذیل معلومات فراہم کرنا ہوتی تھیں۔میں حلفیہ اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے چھ ماہ قبل میرے خلاف کوئی فوجداری مقدمہ زیر التوا نہیں تھا ،یا پھر میں حلفیہ اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے چھ ماہ قبل درج ذیل فوجداری مقدمات میرے خلاف زیر التوا تھے ۔اسی طرح امیدوار کو اس بات کا اقرار کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس نے کسی قسم کی تعلیم حاصل کی ہے یانہیں ۔یہ اقرار نامہ ماضی میں ضروری تھا اور امیدواروں کو اپنی بتائی گئی تعلیم کی ڈگریاں جمع کرانا ہوتی تھیں ۔اس شق کے تحت غلط بیانی کے باعث کئی ارکان اسمبلی نااہل بھی ہوئے تھے۔تعلیم کی طرح امیدواروں کو اپنے پیشے سے متعلق معلومات فراہم کرنے سے استثنیٰ دے دیا گیا ہے، مثلاً وہ چاہے ڈاکٹر ہو، انجینئر ، سائنس دان، وکیل ، صحافی یا پھر کاروباری شخص۔گزشتہ ماہ نئے منظور ہونے والے فنانس بل کے مطابق، کوئی بھی شخص نئی گاڑی یا جائداد نہیں خرید سکتا اگر وہ ٹیکس ریٹرن فائلر نہ ہو۔تاہم ، انتخابات میں حصہ لینے والے کے لیے ایسی کوئی شرط پوری کرنا ضروری نہیں۔نئے کاغذات نامزدگی فارم میں نیشنل ٹیکس نمبر کے ساتھ ساتھ گزشتہ تین برس کی آمدنی ظاہر کرنے اور انکم ٹیکس ادائیگی کی شرط ختم کردی گئی۔2013کے کاغذات نامزدگی میں یہ اقرار کرنا ضروری ہوتا تھا کہ گزشتہ تین برس میں میری جانب سے ادا کیا گیا انکم ٹیکس اس طرح ہے(انکم ٹیکس ریٹرنز کی نقل منسلک کی جاتی تھی)اسی طرح زرعی انکم ٹیکس کی معلومات سے بھی استثنا دے دیا گیا ۔ماضی میں جو امیدوار انتخابات میں حصہ لیتے تھے انہیں اس بات کا بھی اقرار نامہ دینا ہوتا تھا کہ انہوںنے گزشتہ تین برس میں کتنی مرتبہ بیرون ملک سفر کیا اور اس پر کتنا خرچہ آیا۔2013میں پاسپورٹ کی نقل اور اخراجات کی تفصیلات جمع کرانا ضروری تھا، تاہم اب ایسا نہیں ہے۔ایسا امیدوار جو کہ ایم پی اے یا ایم این اے کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکا ہو، اس سے وضاحت طلب کی جاتی تھی کہ اس نے اپنے حلقے میں کیا خدمات انجام دیں ۔ماضی کے کاغذات نامزدگی پیپر میں اس طرح سوال موجود تھا، اگر آپ رکن قومی اسمبلی یا رکن صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں تو آپ کے مطابق کونسا ایک سب سے اہم کام تھا جو آپ نے اپنے حلقے کی بہتری کے لیے کیا؟ یہ سوال بھی اب ختم کردیا گیا ہے۔2013کے کاغذات نامزدگی فارم میں یہ سوال بھی تھا کہ کیا آپ نے سیاسی جماعت کو ، جس نے آپ کواس الیکشن کے لیے پارٹی ٹکٹ دیا ہے اسے آپ نے کسی قسم کی ادائیگی کسی بھی مد میں کی ہے۔اگر اس کا جوا ب ہاں میں ہوتا تھا تو تفصیلات بھی جمع کرانا ہوتی تھیں۔اسی طرح امیدواروں سے یہ بھی پوچھا جاتا تھا کہ کیا اسے پارٹی کی جانب سے کوئی مالی امداد ملی ہے۔تاہم موجودہ کاغذات نامزدگی میں سے یہ دونوں سوالات مٹا دیئے گئے ہیں۔اسی طرح امیدواروں کو جاری مالی سال کی 30جون تک کے تمام اثاثوں کی تفصیلات کے ساتھ گزشتہ مالی سال کے 30جون تک کے اثاثوں کی تفصیلات بمعہ ان دونوں کے فرق کے جمع کرانے ہوتے تھے ۔تاہم اب یہ معلومات فراہم کرنا ضروری نہیں ہے۔پیشتر یہ بھی ضروری تھا کہ امیدواروں کو یہ بتانا ہوتا تھا کہ ان کے پاس کوئی پاسپورٹ ہے، اس کی تفصیلات اور ملک کا نام بھی بتانا ہوتا تھا اگر جو اب ہاں میں دیا جاتا تھا تو، اسی طرح اس حلف نامے پر بھی دستخط کرنا ہوتے تھے کہ اس نے کوئی غیر ملکی شہریت حاصل نہیں کی ہے۔حلف نامہ اس طرح تھا۔حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ میں نے پاکستان کی شہریت منسوخ نہیں کی ہے نہ ہی میں نے کسی بیرون ملک شہریت کے لیے درخواست دی ہے اور نہ ہی وہاں کی شہریت حاصل کی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ امیدوار کو ایک این او سی پر بھی دستخط کرنا ہوتے تھے کہ اسے یہ برا نہیں لگے گا کہ اس کی کسی بھی ملک کی ممکنہ شہریت اختیار کرنے سے متعلق معلومات حاصل کی جائیں۔اس کا ڈرافٹ اس طرح تھا۔1۔میں، مسٹر، مس، مسز۔۔۔والد/شوہر کا نام۔۔۔اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ مجھے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا اگر میری کسی غیر ملکی ریاست سے متعلق معلومات حاصل کی جائیں گی یا اس طرح کی شہریت سے متعلق درخواست کی معلومات حاصل کی جائیں گی جو کہ کسی بھی بیرون ملک کی جانب سے وزارت خارجہ امور حکومت پاکستان یا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فراہم کی گئی ہوگی ۔2۔میں، مسٹر، مس، مسز۔۔۔والد/شوہر کا نام۔۔۔اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ اس فارم کے کسی بھی تفصیل سے متعلق تفصیلات فراہم کرنے میں ناکامی کی صورت میں میرے کاغذات نامزدگی مسترد کردیئے جائیں یا اگر فراہم کردہ کوئی بھی معلومات کسی بھی وقت غلط ثابت ہوں ، تو میرا انتخاب کالعدم قرار دیا جائے گا۔یہ تفصیلات بھی کاغذات نامزدگی فارم سے ختم کردی گئی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button