کاش افراد کی بجائے ادارے بنائے ہوتے تم نے
وووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے صاحب نے بذات خود ووٹ کو آج کے دن تک جتنی عزت دی ہے وہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں، یہ صاحب آج کل جن کو خلائی مخلوق کے لقب سے نواز رہے ہیں دراصل خود بھی اسی خلائی مخلوق کی نرسری کا لگایا ہوا ایک پودا ہیں بس فرق صرف اتنا ہے کہ اس خلائی مخلوق نے اپنے لگائے ہوئے باقی پودوں کو کانٹ چھانٹ کر اپنے اپنے سائز میں برقرار رکھا مگر اس پودے کی ہر موسم میں آبیاری کی جس وجہ سے آج یہ پودا اتنا تناآور درخت بن گیا ہے کہ اب اس کے سائز کو مینٹین رکھنا اس خلائی مخلوق کے لئے بھی مشکل ہو گیا ہوا ہے۔
آج کل پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں دو سابق وزراۓاعظم جن میں یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کے خلاف اور دو ہی سابق آرمی چیف جن میں مرزا اسلم بیگ اور جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف مختلف کیس لگے ہوئے ہیں، تین کیسز مالی بدعنوانی کےہیں مگر ایک کیس جو مرزا اسلم بیگ صاحب کے خلاف ہے اس کی نوعیت ذرا مختلف ہے، جسٹس ریٹائرڈ افتخار چوہدری کی سربراہی میں بننے والے بنچ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں واضح لکھا ہے کہ مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے۔
گذشتہ پیر کو چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے اس کیس کی سماعت کے دوران فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے ایف آئی اے سے تفصیل طلب کی جو کہ غیر تسلی بخش تھی، فیصلے میں ذمہ داروں کے خلاف قانونی کاروائی کے ساتھ ساتھ بانٹی گئی رقم سود سمیت واپس لینے کا حکم بھی دیا گیا تھا، جہاں تک قانونی کاروائی کا تعلق ہے تو وہ ایف آئی اے یا دیگر اداروں کے لئے ناممکن تھا کیونکہ اس میں ایک سابق آرمی چیف اور ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی ملوث تھے جن کے خلاف کارروائی ہمارے ملک میں شجرممنوعہ سمجھی جاتی ہے مگر کم از کم رقم کی سود سمیت واپسی تو ممکن تھی لیکن اس کو بھی جان بوجھ کر پس پشت ڈالا گیا کیونکہ یہ پیسہ بیچاری قوم کا تھا شاید اس لئے۔
اب یہ کیس موجودہ عدلیہ اور چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے لئے ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور اگر وہ اس کیس کے سابقہ فیصلے پر من و عن عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو میرے خیال میں پھر پاکستان میں حقیقی معنوں میں قانون کی بالا دستی کے قیام کی طرف ایک نہایت اہم قدم ثابت ہو گا اور ووٹ کی عزت کا واویلا کرنے والوں کا بھی منہ بند ہو جائے گا، اس سے تمام ریاستی اداروں میں قانون پر مکمل عملدرآمد کروانے کی جرآت پیدا ہو گی اور آئندہ تمام ادارے اپنی اپنی ڈومین میں رہتے ہوئے آئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دینگے۔
مسئلہ اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں عمل دخل کا نہیں کیونکہ تقریباً ہر ملک کی اسٹیبلشمنٹ اس ملک کے سیاسی معاملات سے بھی اتنی ہی باخبر ہوتی جتنی ملکی سلامتی کی اور علاقائی معاملات کی، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے صرف سیاستدانوں کی ہی پرورش کی ہے نہ کہ اداروں کی، جتنی توجہ انہوں نےسیاستدانوں پر دی ہی اگر اس سے آدھی توجہ بھی اداروں کو ٹھیک کرنے پر دی ہوتی تو یقیناً آج ملکی صورتحال مختلف ہوتی اور ہم بھی ترقی یافتہ قوموم میں شامل ہوتے، اس لئے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے لئے اپنے کئے ہوئے ہر فیصلے پر عملدرآمد کروانا نہایت ضروری ہے چاہے وہ فیصلہ کسی آرمی چیف کے خلاف ہو یا کسی وزیر اعطم کے خلاف یا کسی بھی طاقتور ترین شخص کے خلاف کیونکہ مہذب ملکوں میں قانون طاقتور ہوتے ہیں نہ کہ شخصیات۔