’چشم بددور‘
آج کا کالم مختلف موضوعات پر مشتمل اور کچھ منتشر قسم کا ہوگا۔ ممکن ہے اس میں ربط بھی آپ کو خود ہی ڈھونڈنا پڑے۔ پہلی بات تو یہ کہ آج جس جعلی دو نمبر جمہوریت کے خلاف جو چند سریلی لیکن توانا آوازیں سنائی دے رہی ہیں، وہ میری گزشتہ25 سالہ محنت کا اجر اور ثمر ہے۔ ورنہ تو اس مردود کے خلاف بات کرنا بھی ’’سیاسی کفر‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ اسی حوالے سے میں نے چند روز قبل مادر ِ جمہوریت برطانیہ کی 19ویں صدی والی اس سیاسی بدچلنی کا ذکر کیاتھا جسے گورے اس زمانے میں "Pocket Borough” یا "Rotten Borough”بھی کہتے یعنی مخصوص افرادیا خاندانوں کے مخصوص حلقہ ہائے انتخاب جن کے ذریعے پارلیمینٹ کو ربر سٹمپ کی طرح استعمال کیاجاتاتھا۔ یہ ’’الیکٹ ایبلز‘‘ اپنے ووٹرز کے نہیں سیاسی سرغنوں کے وفادار ہوتے تھے۔ کچھ قارئین مزید وضاحت چاہتے ہیں تو اس کی ایک معروف Defination کچھ یوں ہے۔
"Pocket borough, election district that is controlled by, or in the pocket of one person or family. The term was used by 19th-century English parliamentary reformers to describe the many boroughs in which a relativley small population was either bribed or coerced by the leading family or landowners to elect their representatives to parliament. As a result, parliament was controlled by the landed gentry and seats were filled by reps who wanted to please thier patrons rather than their constituents.”
جمہوریت کے نام پر یہی لعنت اور نحوست 2018میں بھی ہم پاکستانیوں پر مسلط ہے تو اس بدمعاشی کے بینی فشریز یا بیوقوف تو بھلے اس کے گن گائیں، ہم جیسے اسے چوراہا میں ننگا کرتے رہیں گے۔اب چلتے ہیں ان پارلیمینٹرینز کی طرف جو’’ ن‘‘ لیگ چھوڑگئے۔ وجوہات کچھ بھی ہوں، ان کا جذبہ اور مطالبہ سو فیصد درست ہے۔ ’’جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘‘ کا فیصلہ بھی صحیح ہے، انہیں چاہئے اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ اپنے اہداف حاصل کرسکیں۔ ایک جھٹکے نے شہباز کو جنوبی پنجاب صوبہ بنانا اور بہاولپور صوبہ بحالی یاد دلا دی تو آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا لیکن کوئی ان پربھروسہ نہ کرے کہ وعدہ خلافی ’’ن‘‘ کے خون میںشامل ہے۔ چوہدری شجاعت اپنی سوانح ’’سچ تو یہ ہے!‘‘کے صفحہ 145، 146 میں لکھتے ہیں ۔’’جیسے ہی عام انتخابات کا اعلان ہوا، نواز شریف کے والد میاں محمد شریف بنفس نفیس گلبرگ ہمارے گھر تشریف لائے۔ کہنے لگے میں آپ کی والدہ سے بھی بات کرنا چاہتا ہوں۔ ہم ان کو اپنی والدہ کے پاس لے گئے۔ میاں محمد شریف نے میری والدہ سے کہا کہ میں اور میرا خاندان آپ کے انتہائی احسان مندہیں۔ آپ لوگوں نے ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا ہے حتیٰ کہ ہمارے لئے جیل بھی کاٹی۔ اب میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اس بار الیکشن میں کامیابی کے بعد اگر نواز شریف وزیر اعظم بنتے ہیں توپرویز الٰہی ہی پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک بھائی کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے دوسرا بھائی وزیر اعلیٰ بن جائے۔ انشاء اللہ اس بار آپ کے بچوں کے سرپر اقتدار کا ہما بیٹھے گا اور دونوں خاندان ایک خاندان کی طرح مل کر اکٹھے چلیں گے۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا لیکن الیکشن میں مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے جیت گئی تو پہلے کی طرح اس بار بھی وعدہ خلافی کی گئی۔‘‘چوہدری شجاعت نے تو اب لکھا، اک دنیا اس وعدہ خلافی بلکہ وعدہ خلافیوں سے واقف ہے اور اب آخر پر چلتے چلتے نواز شریف کی اس چیخ و پکار پر کہ پری پول دھاندلی ہو رہی ہے۔ واقعی بڑا حوصلہ اور جگرا درکار ہے اس قسم کی رنگ بازی اور بول بچنی کے لئے کہ پری پول دھاندلی کا شور وہ شخص مچا رہا ہے جو خود پری، پری ، پری پول دھاندلی کا چلتا پھرتا اشتہار ہے بلکہ اگر اس میں پوسٹ پول دھاندلی بھی شامل کرلی جائے توتاریخ کے ساتھ عین انصاف ہوگا۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بڑا ایکٹو ازم جاری ہے جبکہ میرا خیال ہے کہ کچھ بھی نہیں ہورہا۔ شریف خاندان اپنی بوئی ہوئی فصل بلکہ فصلیں کاٹ رہا ہے۔ زہریلے کانٹوں کی یہ فصلیں کٹیں گی تو نئے سرے سے زمین تیار ہوگی اور گلابوں کی نئی فصل کاشت ہوسکے گی کہ عذابوں کی فصلیں کاٹتے کاٹتے کئی نسلیں اجڑ گئیں۔ 70سال بیت گئے۔عدالتی اصلاحات پر بھی کام شروع ہوچکا۔عدالتی انصاف بھی احتساب کی گود میں پروان چڑھ رہا ہے۔چشم بددور….. چشم بددور