پہلا فیصلہ کالعدم‘ ریفرنسز یکجا کرنے کیلئے نوازشریف کی درخواست‘ احتساب عدالت دوبارہ سماعت کرے: اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد(نیوز وی او سی) اسلام آباد ہا ئی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ریفرنس یکجا کرنے کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے احتساب عدالت کا19 اکتوبر کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ مسترد کی گئی درخواستوں کو زیر التوا تصور کیا جائے، عدالت نے دو صفحات پر مختصر فیصلہ جاری کیا جبکہ وجوہات پر مبنی تفصیلی فیصلہ بعدازاں جاری کیا جائے گا، فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ نیب آرڈیننس سیکشن 17 ڈی اور قابل اطلاق قوانین کی روشنی میں ٹرائل کورٹ نواز شریف کی مسترد رخواستوں کی سماعت کرکے فیصلہ کرے، فیصلہ میں ٹرائل کورٹ (احتساب عدالت)کو دوبارہ درخواستوں پر فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، واضح رہے اس سے پہلے کیس کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر نے نواز شریف کی جانب سے 3 احتساب ریفرنسز یکجا کرنیکی درخواست سے متعلق کیس کی سماعت کی تو نواز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے اپنے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے اپنے28 جولائی کے فیصلے میں علیحدہ علیحدہ ریفرنس دائر کرنے کا نہیں کہا تھا نیب کی تاریخ میں کبھی ایک نوعیت کے الزامات پر مختلف ریفرنس دائر نہیں ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ ایک ہی نوعیت کے مختلف ریفرنسز پر علیحدہ علیحدہ فرد جرم عائد نہیں کی جا سکتی، تینوں ریفرنسز میں زیادہ تر گواہ مشترک ہیں، سندھ ہائیکورٹ نے نیٹو کنٹینر کیس میں دائر 49 ریفرنسز کو یکجا کرنے کا حکم دیا، تمام ریفرنس یکجا کرنے اور مشترکہ ٹرائل کی ہماری درخواست احتساب عدالت نے بغیر کسی قانونی وجہ کے مسترد کر دی۔ نیب پراسیکوٹر مظفر عباسی کی جانب سے نواز شریف کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا کہ سپریم کورٹ نواز شریف کی نظر ثانی کی درخواست پہلے ہی مسترد کر چکی اب کچھ نہیں ہوسکتا تینوں ریفرنسز میں فرد جرم عائد ہو چکی، بیانات ریکارڈ ہورہے ہیں نئے سرے سے ریفرنسز میں بہت وقت لگ جائے گا تینوں ریفرنسز میں لگائے گئے الزامات کی نوعیت مختلف ہے۔ جسٹس محسن اختر کیا نی نے کہا کہ ضابطہ فوجداری میں جرائم کی علیحدہ علیحدہ درجہ بندی کی گئی ہے، نیب آرڈیننس میں ایسی کوئی درجہ بندی نہیں۔ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک نہیں تین ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا تینوں ریفرنسز الگ ہیں ، آپس میں کوئی تعلق نہیں،۔ نواز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تینوں ریفرنسز میں آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ہے،سپریم کورٹ نے یہ نہیں کہا کہ تین ریفرنس مشین میں جائیں گے اور سزائیں باہر آئیں گی، پراسیکیوٹر کی تو کوشش ہوتی ہے کہ رگڑا دیا جائے مگر عدالت نیوٹرل ہوتی ہے، اس پر جسٹس عامر فاروق نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ بلکہ کورٹ کا فیورٹ چائلڈ تو ملزم ہوتا ہے۔ نواز شریف کے وکیل نے فاضل عدالت سے استدعا کی کہ احتساب عدالت میں تین نومبر کو سماعت ہے، کارروائی روکی جائے، عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے قرار دیا کہ ہم درخواست پر آج ہی فیصلہ سنائیں گے۔ جو بعدازاں جاری کردیا گیا۔ عدالت عالیہ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے سابق وزیر اعظم کے نمائندے ظافر خان کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی۔ 19 اکتوبر کو ٹرائل کورٹ لندن فلیٹس‘ العزیزیہ سٹیل ملز اور آف شور کمپنیز سے متعلق ریفرنس یکجا کرنے کی درخواست مسترد کر چکی ہے عدالت نے درخواست مسترد کرنے کی وجوہات واضح کرنے کی ہدایت بھی دی۔