پناہ گزین سے ماڈل بننے والی لڑکی
(بشیر باجوہ بیورو چیف پاکستان نیوز وائس آف کینیڈا )
دنیا میں اس وقت بھی ساڑھے 6 کروڑ سے زائد افراد پناہ گزین یا مہاجر کے طور پر اذیت بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
لیکن مصیبت کے مارے ان کروڑوں لوگوں میں سے کوئی خوش نصیب ایسا بھی ہوتا ہے، جو دنیا میں وہ مقام حاصل کرلیتا ہے، جس کا وہ ہمیشہ خواب دیکھتا ہے۔
ایسا ہی مقام جنوبی سوڈان کی ایک پناہ گزین سیاہ فام لڑکی نے بھی حاصل کیا، جو زندگی کے دشوار ترین سال گزارنے کے بعد اس مقام پر پہنچیں جس کا کبھی اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔
جنوبی سوڈان کی پناہ گزین سے ماڈل بننے والی میری ملیک کی کہانی کو برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی، وائس میگزین، یاہو نیوز اور دیگر نشریاتی اداروں نے شائع کیا۔
جنوبی سوڈان جو کم سے کم 4 دہائیوں تک خانہ جنگی کا شکار رہا، اس نے 2011 میں سوڈان سے آزادی حاصل کی۔
سوڈان میں دوسری خانہ جنگی کے دوران حکومتی وزیر خزانہ کے گھر پیدا ہونے والی میری میلک نے یہ کبھی سوچا ہی ںہیں تھا کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر دوسروں کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے گی۔
میری میلک 1983 میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران پیدا ہوئیں، ان کے والد حکومتی وزیر ہونے کی وجہ سے مستحکم مالی پوزیشن میں تھے، اس لیے انہوں نے 4 شادیاں کر رکھیں تھیں، جب کہ ان کے 20 بچے تھے۔
میری میلک کی ماں ان کے والد کی تیسری بیوی تھیں، اور انہیں 2 بچیاں تھیں، وہ پیشے سے نرس تھیں۔
کچھ ہی سالوں میں خانہ جنگی میں شدت آگئی، حملہ آوروں نے ان کے گھر پر حملہ کرکے ان کے والد کو اغوا کرلیا، اور تمام ملکیت لوٹ لی۔
بعد ازاں ان کے والد لوٹ آئے، مگر اس وقت وہ حکومتی وزیر نہیں تھے، اور سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔
میری میلک کی ماں اپنے شوہر اور دیگر اہل خانہ سے چوری چھپے دونوں بچیوں کو لے کر مصر پہنچیں، جہاں وہ ایک پناہ گزین کیمپ میں رہنے لگیں۔
اس وقت میری میلک کی عمر 6 سے 7 سال تھی، اور وہ کسی مسیحا کے انتظار میں تھے، ان ہی دنوں میں امریکی عوام اور حکومت ان مہاجرین کی مدد کے لیے انہیں امریکا میں رہائش دینے کے منصوبے پر کام کر رہے تھے۔
چند سال انتظار کے بعد بالآخر میری میلک کے خاندان کو 1997 میں ایک ایشیائی نژاد امریکی کیتھولک عیسائی کی جانب سے امریکا میں رہائش دینے کا بندوبست کیا گیا۔
وہ پہلے پہل ریاست نیوجرسی میں منتقل ہوئیں، جہاں انہیں ایک ایسی عمارت میں رہائش دی گئی جہاں منشیات اور جسم فروشی کا کاروبار عروج پر تھا۔
میری میلک جب 15 برس کی ہوئیں تو انہوں نے اسکول جانا شروع کیا،انہیں پہلی نوکری 16 برس کی عمر میں ملی، وہ 18 برس کی عمر میں ہائی اسکول چھوڑ کر کالج پہنچیں، جہاں انہیں کسی لڑکے سے محبت ہوگئی۔
میری میلک جب 20 برس کی تھیں، تو انہوں نے ایک بچی کو جنم دیا، اور ساتھ میں کالج کی تعلیم مکمل کرکے ایک دوسری نوکری حاصل کرنے میں بھی کامیاب گئیں، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ انہوں نے بغیر باپ کے بچی کو جنم دیا تھا۔
حالات کو دیکھ کر میری میلک نے ماں سے نیویارک جاکر قسمت آزمانے کی اجازت لی، اور وہ اب خوابوں کے شہر پہنچ چکی تھی، جہاں ایک روشن مستقبل اس کا منتظر تھا۔
انہوں نے بڑی کوششوں کے بعد مین ہٹن کے ایک کلب میں ڈی جے کی نوکری حاصل کی، جہاں وہ ’ڈی جے اسٹیلٹو‘ کے نام سے پہلی سیاہ فام جنوبی سوڈانی خاتون کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے لگیں، اور اب تک وہ وہاں کام کر رہی ہیں۔
ڈی جے کے طور پر کام کرنے کے دوران ان کا واسطہ اسٹیو میسل نامی ایک فوٹوگرافر سے پڑا، جنہوں نے ان کا ماڈل فوٹو شوٹ کیا، جہاں سے ان کے لیے ماڈلنگ کے دروازے کھلے۔
میری میلک نے یونیورسٹی آف کولمبیا سے شاعری کی تعلیم بھی حاصل کی، اب تک ان کی تصاویر معروف فیشن میگزین ’ووگ‘ اور ’لینون‘ سمیت متعدد میگزینز میں شائع ہوچکیں ہیں۔
میری میلک نے سیاہ فام گلوکار کینیے ویسٹ کے گانوں سمیت لیڈی گاگا اور دیگر سنگرز کے ساتھ بھی پرفارمنس کی ہے۔
امریکی میگزین ’وائس‘ نے اپریل 2014 میں ان کی زندگی، جدوجہد اور ماڈل بننے کے سفر کی کہانی شائع کی، جو 130 صفحات پر مبنی تھی۔
میری میلک اس وقت ماڈلنگ کی دنیا میں اپنا نام کما چکی ہیں، اور اپنی والدہ، بڑی بہن اور بیٹی کے ساتھ پرسکون زندگی گزار رہی ہیں، لیکن انہیں ہر وقت اپنے ملک جنوبی سوڈان کی فکر رہتی ہے۔
حتیٰ کہ اب جنوبی سوڈان ایک الگ اور خودمختار ملک بن چکا ہے، جسے اقوام متحدہ کی رکنیت بھی دی جاچکی ہے، مگر وہاں حالات اب بھی خانہ جنگی جیسے ہی ہیں، جو میری میلک کو پریشان کیے رکھتے ہیں۔