رنگ برنگ

’ پروین شاکر نے خواتین کو نئی پہچان دی-ناہید منظور صدر راولپنڈی آرٹس کونسل

ویسے تو پروین شاکر کو محبتوں اور خوشبوؤں کا شاعر بھی کہا جاتا ہے، مگر انہیں شاعری میں مظلوم خواتین کے جذبات کو بھرپور طریقے سے پیش کرنے کے حوالے سے خصوصی اہمیت حاصل ہے۔
پاکستان کی خواتین شعراء میں ان کا مقام منفرد رہا ہے۔
راولپنڈی آرٹس کونسل (آر اے سی) کی سابق صدر ناہید منظور کہتی ہیں پروین شاکر نے اپنی شاعری میں مظلوم خواتین کے جذبات کی بھرپورعکاسی کی۔
ناہید منظور جو خود بھی ایک لکھاری، تنقید نگار اور ادب سے وابستہ شخصیت ہیں، ان سے ڈان نے گفتگو کی، جس میں انہوں نے پروین شاکر کے فن سمیت ادب کے دیگر موضوعات پر بات کی۔
آج کل کس کتاب کا مطالعہ کرنے کے سوال کے جواب میں ناہید منظور نے بتایا کہ وہ آج کل پروین شاکر کی کتاب خوشبو پڑھ رہی ہیں، جو 1977 میں شائع ہوئی، یہ کتاب ہمیشہ ان کی ٹیبل کے قریب رہتی ہے، کیوں کہ کچھ کتابیں بار بار پڑھنے جیسی ہوتی ہیں، اور خوشبوء بھی ان کتابوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے اس کتاب کے حوالے سے مزید بتایا کہ پروین شاکر نے اس کتاب میں ان خواتین کے جذبات اور جدوجہد کی بھرپور عکاسی کی ہے، جو اس مردانہ معاشرے میں اپنی الگ شناخت اور مقام بنانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔
ناہید منظور کے مطابق پروین شاکر نے ان خواتین کے لیے آواز بلند کی، جو اپنی ذات اور اپنے حق کے لیے کبھی نہیں بول پاتیں، اور پروین شاکر نے انہیں ایک نئی پہنچان اور آواز دی۔
راولپنڈی آرٹس کونسل کی سابق صدر نے کتابوں کے شوق کے حوالے سے بتایا کہ وہ پروین شاکر کی اس کتاب سمیت قدرت اللہ شہاب کی کتاب ’شہاب نامہ‘ بانو قدسیہ کی ’راجہ گدھ‘ اور اشفاق احمد کی کتابیں بار بار پڑھتی ہیں۔
اس سوال پر کہ انہیں آخری بار کون سی کتاب پڑھنے میں سب سے زیادہ مزا آیا کہ جواب میں انہوں نے بتایا کہ برصغیر کی تقسیم کے موضوع پر رضیہ بٹ کا ناول ’بانو‘ پڑھ کر انہیں خوب لطف آیا۔
انہوں نے ناول سے متعلق بتایا کہ ناول میں تقسیم ہند کی کہانی کو بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے، خصوصی طور پر خواتین، بچوں اور عمر رسیدہ افراد کی کہانی کو، جب کہ ناول میں ان ہندوؤں کی اصلیت کو بھی اچھے طریقے سے بیان کیا گیا ہے، جنہوں نے مسلمانوں کو اپنا دوست کہہ کر انہیں کو لوٹا۔
اب تک کلاسک ادب کی کون سی کتابیں نہیں پڑھ پائیں؟ کے جواب میں ناہید منظور نے بتایا کہ ایسی بہت ساری کتابیں ہیں، جو وہ پڑھنا چاہتی ہیں، مگر وہ نہیں پڑھ سکیں، ان میں سے فارسی کے شاعر ابو القاسم فردوسی کی کتاب ’شاہنامہ‘ اور مولانا رومی کی ’مثنوی‘بھی شامل ہیں۔
ناہید منظور کے مطابق حتٰی کہ انہوں نے یہ کتابیں متعدد بار پڑھنے کی کوشش بھی کی، مگر وقت کی قلت اور مصروفیات کے باعث انہیں مکمل نہ پڑھ سکیں۔
ناہید منظور نے کہا کہ انہوں نے اپنی تحریروں کو بھی وقت دیا، جس وجہ سے وہ کتابیں نہیں پڑھ پائیں، وہ کہتی ہیں انہیں جنوبی ایشیا سمیت برصغیر کے کلاسک ادب پڑھنے کا بھی شوق ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ عربین نائٹس، الف لیلیٰ، آرائشِ محفل سمیت دیگر کلاسیکل ادب کی کتابیں بھی پڑھنا چاہتی ہیں، لیکن انہیں ہمیشہ وقت کی کمی کا سامنا رہا۔
پاکستان کے بہترین لکھاری کے حوالے سے ناہید منظور نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شاعروں میں مرزا اسداللہ خان غالب، فیض احمد فیض سے اچھے شاعر تھے، احمد فراز کا کام بھی منفرد ہے، انور مقصود کے کام کا بھی کوئی ثانی نہیں، جو انہوں نے پنجابی، اردو اور فارسی میں کیا۔
فکشن کے حوالے سے انہوں نے قرعت العین حیدر اور عبداللہ حسین کو سب سے بہترین لکھاری قرار دیا، اور کہا کہ ان دونوں لکھاریوں نے بر صغیر کے ادب کو ہی تبدیل کردیا، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ قارئین کو کس طرح اپنے سحر میں جکڑے رکھنا ہے، اور کس طرح کہانیوں کے کرداروں کو پیش کرنا ہے۔
مستقبل میں اپنے مطالعے سے متعلق ناہید منظور نے بتایا کہ وہ سویڈش لکھاری گونر مائرڈل کی کتابیں پڑھنے کا سوچ رہی ہیں، کیوں کہ انہوں نے سیاسی، سماجی و اقتصادی مسائل پر اعلیٰ قسم کا مواد تحریر کیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button