پاک فوج ہر محاذ پر ہر خطرے سے نمٹنے کیلئے تیار: آرمی چیف
مظفرآباد 10جون 2017
(بشیر باجوہ نیوز وائس آف کینیڈا)
مظفرآباد: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے واضح کیا ہے کہ پاک فوج وطن عزیز کو درپیش دفاع اور سلامتی کے چیلنجز سے آگاہ ہے اور ‘ہر محاذ پر’ ہر خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
پاک افواج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق آرمی چیف نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ مظفرآباد سیکٹر کا دورہ کیا، جہاں انھیں مقامی کمانڈروں کی جانب سے آپریشنل صورتحال، بھارت کی جانب سے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزیوں اور پاکستانی افواج کی بھرپور جوابی کارروائیوں سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
افسران اور جوانوں سے بات چیت میں آرمی چیف نے ان کی پیشہ ورانہ مستعدی کو سراہتے ہوئے بلند حوصلے اور ہمت کی تعریف بھی کی۔
ایل او سی پر تعینات دستوں نے آرمی چیف کو بھارتی مظالم اور معصوم شہریوں کو ہدف بنانے سے متعلق اپنے احساسات سے آگاہ کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ بھارت کی ہر مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کے ساتھ بھارتی مظالم کے خلاف لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف موجود کشمیروں کے عزم و حوصلے کو بھی سراہا اور ایک بار پھر انھیں حمایت کی یقین دہانی کرائی۔
آرمی چیف نے ایل او سی کا دورہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے، جب 2 روز قبل بھارت کے آرمی چیف بپن روات نے کسی ملک یا گروپ کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ بھارتی فوج بیک وقت بیرونی اور اندرونی سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
ایک انٹرویو کے دوران بھارتی آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ہندوستانی فوج داخلی اور بیرونی خطرات سے بیک وقت نمٹنے کے لیے تیار ہے تاہم انھوں نے کہا کہ مشکل صورت حال کا حل نکالنے کے لیے جنگ کے علاوہ بھی کچھ طریقے موجود ہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہاں تک کہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کہہ چکے ہیں کہ گذشتہ 40 سال کے دوران چین اور بھارت کی سرحد پر ایک گولی بھی نہیں چلی‘۔
ساتھ ہی بھارتی جنرل کا کہنا تھا کہ پہاڑی جنگ کیلئے بڑھتی ہوئی طلب کو مد نظر رکھتے ہوئے مزید نئے فوجی بھرتی کیے گئے ہیں۔
پاک-بھارت کشیدگی
پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات میں اڑی حملے کے بعد سے کشیدگی پائی جاتی ہے اور ہندوستان کی جانب سے متعدد مرتبہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری کی خلاف ورزی کی جاچکی ہے۔
ان واقعات کے بعد ہندوستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو کئی مرتبہ دفتر خارجہ طلب کرکے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی پر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا اور بھارتی سفارتکار سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ ان واقعات کی تحقیقات کی جائیں گی اور اس کی تفصیلات پاکستان کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔
یاد رہے کہ گذشتہ برس 18 ستمبر کو کشمیر میں اڑی کے مقام پر ہندوستانی فوجی مرکز پر حملے میں 18 فوجیوں کی ہلاکت کا الزام نئی دہلی کی جانب سے پاکستان پر عائد کیا گیا تھا، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کردیا تھا۔
بعدازاں 29 ستمبر 2016 کو ہندوستان کے لائن آف کنٹرول کے اطراف سرجیکل اسٹرائیکس کے دعووں نے پاک-بھارت کشیدگی میں جلتی پر تیل کا کام کیا، جسے پاک فوج نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان نے اُس رات لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی اور بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں 2 پاکستانی فوجی شہید ہوئے، جبکہ پاکستانی فورسز کی جانب سے بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا گیا۔
دوسری جانب گذشتہ برس 8 جولائی کو مقبوضہ کشمیر میں حریت کمانڈر برہان وانی کی ہندوستانی افواج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں بھی کشیدگی پائی جاتی ہے اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف احتجاج میں اب تک 100 سے زائد کشمیری ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں جبکہ پیلٹ گنوں کی وجہ سے متعدد شہری بینائی سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔