پاکستان میں بہت گھپلے ہیں! کیا واقعی؟
وزیر اعظم نے دو دن پہلے کہا کہ ملک میں بہت کرپشن ہے145 اتنے گھپلے ہیں کہ جتنا کہا جائے کم ہے اور بہت تحقیقات ہونے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کی زبانی یہ سب سننے کے بعد ایک لمحے کے لیے لگا کہ یہ ۲۰۱۷ نہیں بلکہ شائد ۲۰۰۸ یا ۲۰۰۹ ہے اور شائد یہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نہیں بلکہ پی پی پی کا دور ہے اور نوازشریف وزیر اعظم نہیں بلکہ اپوزیشن لیڈر ہیں اور پی پی پی حکومت کے ہر روز کرپشن کے نت نئے سکینڈل سامنے آرہے ہیں اور نواز شریف صاحب کا بس نہیں چل رہا اور کرپشن دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ لٹیرے ملک کو لوٹ کر کھا گئے اور نواز شریف صاحب کا پاس سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں کہ وہ لوگوں سے کہیں کہ مجھے ووٹ دیں اقتدار میں آکرمیں سب چوروں کو پکڑوں گا اور ان کا کڑا احتساب کروں گا مگر پھر ایک جھٹکے سے ماضی سے حال میں واپسی ہوئی کہ نہیں یہ ۲۰۱۷ ہی ہے اور نواز شریف حکومت میں ہیں اوراس حکومت کو آئے چار سال گذر چکے ہیں پھر وزیر اعظم نے یہ بات کیوں کی کہ ملک میں کرپشن ہے145 بہت گھپلے ہیں۔ اگر تو وہ ماضی کی حکومت کے گھپلوں کی بات کررہے ہیں تو بھی وزیر اعظم کی حثتیت سے ان کا فرض ہے کہ وہ اس کی تحقیقات کروائیں کہ ملک کا پیسہ لوٹا گیا ہے۔
کوئی ان کا ذاتی پیسہ تو نہیں تھا کہ چلو معاف کر دیا جائے مگریاد آیا کہ ماضی کے تو سارے اسکیںڈل تو ایک ایک کرکے اپنے منطقی انجام کو تو نہیں اپنے انجام کو ضرور پہنچ گئے ہیں ڈاکٹر عاصم ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں145 حامد سعید کاظمی رہا ہو چکے ہیں145 شرجیل میمن واپس آکر سونے کے تاج بھی پہن چکے ہیں اور آصف زرداری صاحب پر سارے الزامات پرشہبازشریف معافی مانگ چکے ہیں کہ یہ الزامات جھوٹے تھے اور یہی نہیں بلکہ آصف زرداری کو الوداع کرتے ہوئے اور ممنون حسین کو ایوان صدرمیںخوش آمدید کہتے ہوئے یہ نصیحت کرچکے ہیں کہ وہ بھی ملک کو ایسے چلائیں جیسے آصف زرداری چلاتے تھے تو ان تمام واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات عیاں ہوگئی کہ وزیراعظم صاحب ماضی کے کسی گھپلےیاسکینڈل کی بات نہیں کر رہے بلکہ اپنے دور کی بات کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم صاحب پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ اقتدار میں ہیں تحقیقات آپ نے کروانی ہے اور آپ کا یہ کہنا کہ اس میں وقت ضائع ہوگا تو یہ معاملہ ملک کا ہے کسی نے اگر پیسہ کھایا ہے تو آپ کا ذاتی پیسہ نہیں بلکہ ملک کا پیسہ ہڑپ ہو رہا ہے اور سب سے اہم آپ نے کہا کہ ترقیاتی کام رک جائیں گے۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ترقیاتی کام رک جائیں گے کیا ترقیاتی کام نیب پولیس یا ایف آئی اے کر رہی ہے یہ کام توانجینئرز نے لیبر نے کرنا ہے اور تحقیقات اداروں نے کرنی ہے تو یہ کہنا کہ کام رک جایئں گے سمجھ سے بالاتر ہے اور اگر کرپشن کرنے والوں کا احتساب نہیں کیا جائے گا تو آپ کے اپنے افتتاح کئے ہوئے منصوبوں میں شفافیت کی کیا گارنٹی ہے؟ نندی پور منصوبہ اس کی واضح مثال ہے یہ منصوبہ ناکام ہونے کے بعد ذمہ داروں کو اگر نہ پکڑا جائے ان سے نہ پوچھا جائے کہ کم پاور والا پلانٹ یہاں کیسے پہنچا؟، چارسوپچیس میگاواٹ کا غلط تخمینہ کس نے لگوایا؟، اس کے کے غلط حجم کا اندازہ کس نےکس کے کہنے پر لگوایا؟، اب اگر یہ کسی سے بھی نہ پوچھا جائے تو آپ سمجھوتہ کرہے ہیں، ملک کے سرمائے پر سمجھوتہ145 کرپشن کرنے والوں کوسزا نہ دلوا کرسمجھوتہ، شفافیت پرسمجھوتہ اورمنصوبوں کو کامیابی کے ساتھ پایۂ تکمیل پر پہچانے پر سمجھوتہ۔
پھرآپ کی کارکردگی پرسوالات تو جنم لیں گے ہی کہ منصوبوں پر لگائے گئے لوگ تو آپ ہی کے منتخب کردہ ہیں کیا نالائق لوگ لگائے گئے یا کرپٹ لوگ لگائے گئے یا اقربا پروری کی گئی۔ اور پھر وزیر اعظم جب خود پانامہ کیس میں تحقیقات کا سامنا کر رہے ہوں تو مزید شکوک وشہبات جنم لیتے ہیں کہ کیا اسی وجہ سے وزیراعظم کرپشن کی تحقیقات نہیں کروانا چاہتے؟ اور یہ منطق کہ ترقیاتی کام رک جائِیں گے اور یہ کہ ایک دن آئے گا کہ کرپٹ لوگ خود انجام کو پہنچیں گے یہ سمجھ سے بالاتر ہیں اور وزیر اعظم کی زبانی سن کر ایسا لگتا ہے جیسے ملک کا وزیراعظم نہیں بلکہ کوئی عام آدمی جو بلکل بےیارومددگار اور بے بس ہو وہ یہ سب کہہ رہا ہے۔