پاکستان میں بلیک واٹر کے دھماکوں میں ملوث ہونے کے سرکاری ثبوت اور تصدیق:
ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ سے تہلکہ خیز انکشافات سامنے رکھ دئیے ۔ ہماری عسکری اور سیاسی قیادت مکمل ملوث۔
پاکستان میں بھی دہشت گردی کے خلاف بننے والے نیشنل ایکشن پلان بناتے وقت کسی نے اس بنیادی نکتے پر غور ہی نہیں کیا کہ ایبٹ آباد کمیشن اس ملک میں سی آئی اے کے ایک وسیع نیٹ ورک کی نشاندہی کر چکا ہے۔ اس نیٹ ورک کی موجودگی میں دہشت گردی کا خاتمہ ایسے ہی جیسے کنویں سے سو ڈول پانی نکال لیا جائے لیکن کتا نہ نکالا جائے۔
یہ رپورٹ اپنے صفحہ332 اور پیرا گراف786 میں تحریر کرتی ہے ’’اگر پاکستان نے اپنے زیر نگیں علاقوں میں امن اور اختیار قائم کرنا ہے تو اسے فوری طور پر سی آئی اے اور دیگر بیرونی ملکوں کے خفیہ اور عسکری نیٹ ورک ختم کرنے ہوں گے‘‘۔ رپورٹ کے پیرا 531 میں درج ہے کہ ’’سی آئی اے پاکستان میں مختلف طریقوں سے نیٹ ورک چلاتی ہے اور اس نے این جی اوز، ٹھیکیداروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، سفارت کاروں کے بھیس میں عہدیداروں اور تکنیکی ماہرین کے ذریعے ایک وسیع جال پھلا رکھا ہے اور اس بات کی شہادتیں وزارت دفاع نے مہیا کی ہیں‘‘ رپورٹ کے پیرا گراف 572 میں درج ہے ’’کمیشن نے معلومات حاصل کیں کہ امریکیوں نے اسلام آباد میں389 گھر کرائے پر لیے ہوئے ہیں۔
جب وزارت سے پوچھا گیا کہ امریکیوں کے پاکستان آنے جانے کی کوئی پالیسی موجود ہے تو جواب ملا کہ2000ء میں تجارتی مقاصد کے لیے ویزا پابندیاں نرم کی گئی تھیں اور اب نسبتاً کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ ’’رپورٹ کے پیرا گراف516 میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کا ذکر ہے، جنہوں نے امریکیوں کو بے تحاشا ویزے جاری کیے۔
جس کی وجہ سے سی آئی اے کو پاکستان میں اپنا نیٹ ورک بنانے میں مدد ملی‘‘۔ اسی لیے اپریل2011ء میں جب امریکا میں خفیہ ایجنسیوں کی کانفرنس ہوئی جنھیں (Spymasters) کہا جاتا ہے تو امریکی سی آئی اے کے نمایندے نے کھلم کھلا کہا کہ ہم نے پاکستان میں اپنا نیٹ ورک بنا لیا ہے اور وہ اسقدر مضبوط ہے کہ ہمیں اب آئی ایس آئی کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ یہ نیٹ ورک2011ء تک مضبوط اور مستحکم ہو چکا تھا۔
اگر سی آئی اے کا طریق کار پوری دنیا کے ممالک میں دیکھ لیں اور خصوصاً مسلم ممالک میں تو بات واضح ہو جائے گی کہ آج ہم جس عذاب میں مبتلا ہیں اس کی وجہ یہی نیٹ ورک ہے۔ لبنان میں ساٹھ کی دہائی میں سی آئی اے کا ہیڈ کوارٹر بنا اور اس کے بعد لبنان میں شیعہ سنی اور عیسائی ایک دوسرے کی لاشیں گرانے لگے۔ بحرین اور یمن میں یہ لوگ داخل ہوئے اور قتل و غارت گری کا آغاز ہوا۔ عراق میں شیعہ سنی ایک محلے میں ساتھ ساتھ رہتے تھے لیکن آج وہاں مسلم امہ کی سب سے بڑی شیعہ سنی جنگ برپا ہے، جہاں دنیا بھر سے لڑنے مرنے والے اکٹھا ہو رہے ہیں۔ سی آئی اے کا پاکستان میں نیٹ ورک تنہا نہیں بلکہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی را، افغان ایجنسی خاد اور اسرائیلی ایجنسی موساد کی سرپرست کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔
اس حقیقت سے پاکستان کی ہر خفیہ ایجنسی آگاہ ہے، ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستان سے کس طرح نوجوان دبئی جاتے ہیں، وہاں سے بھارتی قونصل جنرل ان کا بھارت کا ویزا جاری کرتا ہے، وہ ٹریننگ لے کر واپس آتے ہیں، افغانستان میں کس طرح انھیں پناہ ملتی ہے۔ یہ انٹیلیجنس کی دنیا میں ایک خبر نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت کا CIT-X پلان کس قدر تفصیل سے پاکستان میں دہشت گردی کا سرچشمہ ہے اور اسے یہاں موجود سی آئی اے کے نیٹ ورک کی پشت پناہی حاصل ہے۔
کیا یہ سب کچھ پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان میں ایک دفعہ بھی زیر بحث آیا۔ کسی نے کہا کہ تباہی کا اصل ذمے دار کون ہے۔ نصاب بدلو، لاؤڈ اسپیکر پر پابندی لگاؤ، لٹریچر ضبط کرو، اسکولوں کی دیواریں بلند کرو، یہ سب پانی کے ڈول ہیں جو کنویں سے نکالے جا رہے ہیں۔ جب کہ کتا تو کنویں میں موجود ہے، اسے نکالے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں، نہ امن، نہ سکون اور نہ خوشحالی۔