پاکستان اور بھارت کے کھلاڑی میدان ۔ کرن مورے کا کون سا جملہ کارفرما
بھارت 18 جون 2017
(بشیر باجوہ بیورو چیف نیوز وائس آف کینیڈا)
سخت کشیدگی اور دباؤ والے میچوں کے باوجود پاکستان اور بھارت کے کھلاڑی میدان اور میدان سے باہر ایک دوسرے کے ساتھ کیسے ملتے ہیں۔ جاوید میانداد کی چھلانگوں کے پیچھے کرن مورے کا کون سا جملہ کارفرما تھا؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ مقابلے اور خاص طور پر آئی سی سی ایونٹ کے مقابلے دونوں ملکوں میں شائقین اور میڈیا کی سطح پر بہت دباؤ اور ‘ اینگزائٹی ‘ کا سبب ہوتے ہیں لیکن کیا یہ دباؤ اور کھچاؤ کا ماحول کھلاڑیوں کے درمیان بھی ہوتا ہے؟
اتوار کو جب پاکستان اور بھارت دو روایتی حریف ٹیمیں آئی سی سی چیمپئن ٹرافی کے فائنل کے لیے اوول، لندن میں موجود ہیں، دونوں ملکوں کے تماشائی انتہائی امیدوں کے ساتھ نہ صرف اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھا رہیے ہیں بلکہ مخالف کے پرخچے بھی اڑا رہے ہیں۔
ماحول کو تھورا ’’ لائٹ‘‘ بنانے کی کوشش میں بعض لوگ مزاح پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کئی ایک کو تو اندازہ نہیں ہو پا رہا کہ وہ مذاق کرتے کرتے کب ‘ تضحیک ‘ کے دائرے میں داخل ہو گئے۔
دونوں طرف کے میڈیا ہاؤسز بھی کسی ‘موقع موقع’ پر کوئی موقعہ جانے نہیں دیتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ میچ سے پہلے ماحول بہت ٹینس ہو جاتا ہے۔ پہلے کی تو خبر نہیں لیکن 1987 کے بنگلور ٹیسٹ، پھر شارجہ میں میانداد کے چھکے، 1996 میں عامر سہیل کا وینکٹیش پرشاد کو چوکا مار کر باؤنڈری کی راہ دکھانا اور اگلی ہی گیند پر پرساد کو عامر کو پویلین کا راستہ دکھانا، 2007 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں مصباح کے ریورس سوئیپ سے لے کر 2017 کی چیمپئن ٹرافی کے فائنل تک، جب بھی پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں سامنے آئی ہیں، دونوں اطراف کے کرکٹ فینز پر ایک خاص کیفیت سوار رہی ہے۔ کیا یہ دباؤکھلاڑیوں پر بھی ہوتا
آج سوشل میڈیا پر ایک تصویر گردش کر رہی ہے جس میں بھارت کے وکٹ کیپر بلے باز مہندرا سنگھ دھونی پاکستانی کپتان سرفراز احمد کے بیٹے کو بڑی محبت سے اٹھائے کھڑے ہیں۔ یہ تصویر پاکستان میں بھی شائقین کرکٹ سے دھونی کے لیے بہت محبتیں سمیٹ رہی ہے۔ تصویر اس تصور کو غلط ثابت کرتی ہے کہ جیسے پاکستان اور بھارت کے کھلاڑی ہاتھوں میں تلواریں لیے میدان جنگ میں اترے ہوں۔ وہ پروفیشنل کرکٹر ہیں اور ایک دوسرے سے دوستی اور سینئریارٹی کی بنیاد پر احترام کا جذبہ بھی برابر رکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جیتے جاگتے انسان بھی ہیں۔
اس سے قبل بھی بڑے مقابلوں سے پہلے دونوں اطراف کے کھلاڑی ایک دوسرے سے ‘ میٹ ایند گریٹ’ کا حصہ رہتے ہیں۔ ایک بڑے ایونٹ میں بھارت کے باؤلر ظہیر خاں کو وسیم اکرم نے کچھ ٹپس دیں اور ظہیرخان اسی میچ میں میچ ونر بن کر ابھرے۔ جب ظہیر نے میڈیا کو بتایا کہ وسیم اکرم کی ٹپس کا کمال تھا تو پاکستانی میڈیا پر وسیم اکرم کو طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے یہ کہہ کرسب کا منہ بند کرا دیا کہ بھائی سپورٹس مین سپرٹ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
ابھی گذشتہ برس پاکستان کے سابق بلے باز اور ٹیسٹ میچوں میں دس ہزار کے سنگ میل کے ساتھ سب سے زیادہ رنز بنانے والے یونس خان پر انگلینڈ میں ‘ بیڈ پیچ ‘ آیا اور وہ بلاوجہ اچھل کر شارٹ کھیلنے کی کوشش میں جب بار بار آوٹ ہوئے تو بھارت کے سابق کپتان اظہرالدین ان کی مدد کو آئے۔۔ یونس خان نے اگلے ہی میچ میں ڈبل سنچری سکور کی تو انہوں نے ردھم میں واپس آنے کا کریڈٹ اظہرالدین کو دیا۔ آج بھی اگر اظہر علی کو کسی راہگزر میں سچن ٹنڈولکر مل جائیں اور اظہر اگر ان سے فائنل میں اچھا پرفارم کرنے کے لیے کوئی ٹپ چاہیں تو کیا سچن ٹنڈولکر کنی کترا کر گزر جائیں گے؟۔۔ جی نہیں سچن جیسا کرکٹر کبھی اظہر کو خالی نہیں لوٹائے گا۔ آج بھی اگر بھوونشنر وقار یونس سے حتی کہ پاکستانی بولنگ کوچ اظہرمحمود سے ریورس سوئنگ کا تیر بہ ہدف گر پوچھیں تو وہ انکار کر دیں گے۔۔ جواب یقیناّ نہیں میں ہے۔
بظاہر میچ کے دوران جو ٹینشن کھلاڑیوں کے بیچ بھی نظر آتی ہے کیا وہ مستقل نوعیت کی ہوتی ہے۔۔ اگر ہم بھارت کے سابق وکٹ کیپر بلے باز کرن مورے کی بات سنیں گے تو لگتا ہے کہ وہ عارضی نوعیت کی ہوتی ہے اور کھلاڑی اچھے دوستوں کی طرح ساتھ ساتھ ہنسی مذاق بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ کرن مورے نے وائس آف امریکہ کے ایک پروگرام میں اوول کے فائنل سے ایک روز قبل شرکت کی اور پاکستان سے اپنے کولیگ اقبال قاسم کے لیے نہایت محبت کا اظہار کیا۔ اقبال قاسم بھی اسی محبت سے آداب کہتے سنائی دیے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی کریڈیبلٹی کو سراہا۔ کرن مورے جب اپنے کیریئر کے یادگار لمحوں کی بات کر رہے تھے تو تذکرہ ہوا ورلڈ کپ 1992 میں پاکستان کے سابق کپتان اور مایہ ناز بلے باز جاوید میانداد کی مشہور چھلانگوں کا۔۔ جب کرن مورے سے پوچھا گیا کہ آپ نے جاوید میانداد سے ایسی کیا بات کہی تھی جس پر وہ اپنی ٹینشن دور کرنے کے لیے اچھلنے لگے تھے ۔ اس پرکرن مورے نے کہا ’’ میں نے ان سے پوچھا تھا اس وقت محترمہ گھر
کرن مورے کہتے ہیں کہ میانداد بیٹنگ کےدوران بھی ان کو مہدی حسن کی غزلیں گنگنا کر سنایا کرتے تھے۔۔ واقعی۔۔؟ تصور کریں جاوید میانداد گنگنا رہیے ہیں اور کرن مورے کا کیا حال ہو رہا ہو گا۔۔؟ اسی طرح بھارت کے وکٹ کیپر کے بقول پاکستان میں میچ ہو رہا تھا اور میانداد سنچری کے قریب تھے۔ میں اپیل پر اپیل کر رہا تھا ۔ میانداد نے مڑ کر کہا، دیکھ مورے، ہمارے ایمپائر نے مجھے سنچری سے پہلے آوٹ نہیں دینا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اپیلوں کا۔۔اس لیے بہتر ہے چپ کرجا۔