پاناما کیس پوری قوم سے متعلق ہے، سپریم کورٹ وزیراعظم کےوزیراعظم ہاؤس ہولڈکرنےکوچیلنج کیاگیاہے،جسٹس عظمت سعید
اسلام آباد: پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ اس کیس میں پوری قوم متعلقہ ہے کیونکہ فریق وزیر اعظم ہیں اور ہمیں 20 کروڑ عوام کے بنیادی حقوق کو بھی دیکھنا ہوگا۔
سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے آغاز پر مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے اپنی موکلہ کے نام پر خریدی گئی جائیداد کی تفصیلات عدالت کے روبرو پیش کیں، دستاویزات میں جائیداد کی خریداری کی تاریخیں اور دیگر قانونی دستاویزات شامل ہیں۔
سماعت کے دوران وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا زمین والد نے بیٹی کے نام خریدی تھی۔ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ والد نے بیٹی کے نام اراضی خریدی، مریم نواز نے بعد میں اراضی کی قیمت ادا کی تو زمین کی ملکیت کا انتقال ہوا
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نیب آرڈیننس میں بےنامی جائیدادوں کی تعریف تو ہے لیکن زیر کفالت کی نہیں، اس کیس میں پوری قوم متعلقہ ہے کیونکہ فریق وزیراعظم ہیں۔ 20 کروڑ عوام کے بنیادی حقوق کو بھی دیکھنا ہوگا، آرٹیکل 225 کے تحت الیکشن میں کامیابی کو چیلنج کرنے کی معیاد مختصر ہے، معیاد ختم ہونے کے بعد آرٹیکل 184 (3) اور 199 کے تحت آئینی عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے، اسی وجہ سے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض نہیں کیا گیا۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ زیر کفالت کی تعریف نا تو انکم ٹیکس قوانین میں ہے اور نہ ہی عوامی نمائندگی ایکٹ میں، عمومی طور پر والد زیر کفالت بچوں کو جائیداد خرید کر دیتے ہیں، کیس کومدنظر رکھ کر ہی زیر کفالت کی تعریف کوسمجھنا ہوگا۔ کوئی شخص بھائی کے نام جائیداد خریدتا ہے تو کیا وہ بھائی کے زیر کفالت ہے۔ وزیر اعظم قانون کے مطابق رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ جس کے تحت ایسی جو بھی جائیداد ہے اس کو ظاہر کیا جانا چاہیے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ نےخود کہا کہ جائیداد مریم کےنام پررکھی گئی، مریم کوتحفےمیں رقم دی گئی جو اس نے والد کو بعد میں واپس کی، تحفےمیں دی گئی رقم کی واپسی کے بعد جائیداد مریم کو مل گئی، مریم نواز کے مالی حالات میں 2011 کے بعد بہت تبدیلی آئی۔
وزیر اعظم کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہر ٹرانزیکشن کو بے نامی نہیں کہا جاسکتا، بےنامی ٹرانزیکشن کی قانون میں باقاعدہ تعریف موجود ہے۔ مریم نواز2010 میں بھی والد کے زیر کفالت نہیں تھیں۔ آف شور کمپنیوں کے ذریعے ٹیکس چھپایا نہیں بچایا جاتا ہے۔ جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے اس کا مطلب ہے کہ آپ یہی کرتے رہے ہیں۔