ایڈیٹرکاانتخاب

پاناما کیس :سپریم کورٹ نے نوازشریف کے صوبائی وزیر سے وزیر اعظم تک عہدوں کی تفصیلات طلب کر لیں ، سماعت کل تک ملتوی

اسلام آباد (نیوز وی او سی آن لائن )سپریم کورٹ نے نوازشریف کے صوبائی وزیر سے وزیراعظم تک عہدوں پر رہنے کی تفصیلات طلب کر تے ہوئے پانا ما کیس کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی ۔”سماعت روزانہ کی بنیاد پر صبح ساڑھے 9بجے سے دن ایک بجے تک ہو گی
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیر اعظم کے وکلاءکو عہدوں سے متعلق تفصیل کل تک عدالت میں پیش کرنے کا حکم سنا تے ہوئے ریمارکس دیے کہ نوازشریف نے 1997ءمیں کہا کہ بزنس سے الگ ہو رہا ہوں مگر وہ متحرک ہو کر اپنے سارے بزنس سنبھالتے رہے ۔”نوازشریف سیاست بھی کرتے رہے اور بزنس بھی“۔ سوال مفادات کے تضاد کا تونہیں ؟۔ نوازشریف کی جلا وطن رہنے کی مدت بھی بتائی جائے ۔’’دیکھنا ہو گا کہ سرکاری عہدے کا غلط استعمال تو نہیں ہوا ‘‘۔نوازشریف نے عہدہ سنبھالا اور بزنس معاملات آگے بڑھے۔
تفصیلات کے مطابق ، بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ برطانوی کمپنیوں کی ملکیت ثابت کرنا آسان نہیں ہو گا مگر برطانوی کمپنیوں کی ملکیت ثابت کرنا تحریک انصاف کی ذمہ داری ہے ، پاناما کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے گی اور کیس میں کسی قسم کا التواءنہیں ملے گا ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ پر مشتمل 5رکنی نئے لارجر بینچ کے سامنے پانا کا کیس کی پہلی سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے درخواست گزار طارق اسد ایڈوکیٹ نے پاناما معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ججز اور عدلیہ کے خلاف زہر اگلا جارہا ہے ۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کا نام بھی پاناما کیس میں شامل ہے اور رحمان ملک اور جہانگیر ترین کی بھی آف شور کمپنیاں ہیں جبکہ عمران خان کے احتجاج سے عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ پاناما کیس میں کسی قسم کا التواءنہیں ملے گا اور کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سنا جائے گا ۔ ”کسی کو ان اٹینڈنٹ نہیں چھوڑا جائے گا “۔ کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کریں گے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا نیا بینچ بنایا گیا ہے اور ہم تمام دستاویزات کا جائزہ لیں گے ۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا سے نہیں عدالت سے مخاطب ہوا کریں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ آج تک کیس کے حوالے سے میڈیا پر کوئی بات نہیں کی ۔ ہمیں نئے بینچ پر کوئی اعتراض نہیں ہے جس پر جسٹس عظمت سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ بینچ پر اعتراض نہیں تو میڈیا پر بیان بازی سے گریز کریں جس پر نعیم بخاری نے جواب دیا کہ نئے بینچ سے متعلق میڈیا پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر میں دبئی فیکٹری کا ذکر نہیں ہے تو نعیم بخاری نے جواب دیا کہ نوازشریف نے تقریر میں دبئی اور سعودی عرب کی بات کی ۔ انہوں نے اپنی تقریر میں غلط بیانی کی جس کے بعد وہ صادق اور امین نہیں رہے لہذٰا انہیں نااہل کیا جائے ۔جسٹس کھوسہ نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ نوازشریف کی تقریر کی مطابقت بھی واضح کریں ۔
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ کیس کا فیصلہ حقائق کی بنیاد پرکریں گے۔ انہوں نے نعیم بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا انحصار وزیر اعظم کی دو تقریروں پر ہے ۔ کیا وزیرا عظم کی دستخط شدہ دستاویز ہیں ؟تو نعیم بخاری نے کہا کہ کوئی دستاویزات وزیر اعظم کی دستخط شدہ نہیں ہیں ۔وزیرا عظم نے کہا کی جدہ سٹیل مل بیچ کر لندن فلیٹس خریدے جبکہ شریف خاندان کی دبئی میں سرمایہ کاری بے نامی تھی ، دبئی ملز کے 25فیصدی شیئرز 1980ءمیں بیچے گئے مگر شریف فیملی نے بینک ٹرانزیکشن کا ریکارڈ پیش نہیں کیا ۔ انہوں نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ ایف بی آر کو ٹیکس ریکوری کا حکم دیا جائے ۔
نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز آج بھی والد کی زیر کفالت ہیں اور آئی سی آئی جے کی دستاویز ات کو کسی جگہ چیلنج نہیں کیا گیا ۔ بیرون ملک جائیدادیں منی لانڈرنگ سے بنائی گئیں ۔ نعیم بخاری نے طارق شفیع کے حلف نامے کو جعلی قرارد یتے ہوئے کہا کہ حلف نامے اور فیکٹری کی دستاویزات پر دستخط مختلف ہیں جبکہ مریم اورحسین نواز نے بھی غلط بیانی کی ہے ۔
جسٹس گلزار نے استفسار کیاکہ دستاویزات کی قانونی حیثیت کیاہے ؟تو نعیم بخاری نے کہا کہ تمام دستاویزات اور رپورٹس عالمی سطح پر جاری ہوئیں ۔ چیئرمین نیب فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہے ۔ شریف خاندان کی دبئی میں سرمایہ کاری بے نامی تھی ۔ ان کے خطاب میں قطر میں سرمایہ کاری کا ذکر نہیں ۔ دبئی فیکٹری کے 75فیصد شیئرز1978ءمیں بیچے گئے جبکہ گلف سٹیل مل نقصان میں بیچی گئی ، حدیبیہ پیپر مل سے متعلق التوفیق کمپنی نے لندن میں مقدمہ کیا ۔ بیرون ملک جائیدادیں منی لانڈرنگ سے بنائی گئیں اور وزیراعظم ٹیکس چوری کی مرتکب ہوئے ۔انہوں نے مزید کہا کہ نیب کے سربراہ نے شریف خاندان کے حق میں فیصلے پر اپیل نہیں کی جس پر جسٹس کھوسہ نے کہا کہ چیئرمین نیب اپنا جواب جمع کرا چکے ہیں ۔
تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نےدلائل دیے کہ شہبازشریف سے بھی پوچھا جائے کہ لندن میں 33ملین ڈالر کی ادائیگی کیسے کی گئی اور بتائی کہ رقوم بیرون ممالک کے بینکوں سے بطور قرض کیسے حاصل کی گئی کیونکہ اجازت کے بغیر رقم کی منتقلی منی لانڈرنگ ہے تاہم لندن میں ادائیگیوں کا جواب شہبازشریف ہی دے سکتے ہیں تاہم آف شور کمپنیاں پہلے دن سے ہی نوازشریف کی ملکیت ہیں ۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا ایسی کوئی دستاویز ہے جس سے پتہ چلے کہ نیسکول کمپنی1993ءمیں حسین نواز کی ملکیت تھی تو نعیم بخاری نے جواب دیا کہ پورے کیس میں یہی تو راز کی بات ہے۔ نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ فلیٹ نمبر 17سے 1993ءمیں خریدا گیا جبکہ 16اور 16اے 1995ءکو خریدے گئے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ فلیٹ کس نے خریدے کو نعیم بخاری نے بتایا کہ فلیٹ نیسکول کمپنی نے خریدے جو حسین نواز کی ملکیت تھی۔
انہوں نے عدالت سے استفسار کیا کہ شریف خاندان کے مطابق انہوں نے الثانی خاندان کیساتھ سرمایہ کاری کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کیا بیرون ملک رقم منتقلی پر پابندی ہے ؟ تو نعیم بخاری نے کہا کہ رقم منتقلی کیلئے بینک کی اجازت ضروری ہے اور بغیر اجازت کے رقم منتقلی منی لانڈرنگ ہے اور نوازشریف اور بچوں کے تحائف کے درمیان ٹیکس چوری ہے ۔
نعیم بخاری نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت شہبازشریف کو بھی نوٹس جاری کرے تو جسٹس کھوسہ نے کہا کہ شہبازشریف اپکی درخواست میں فریق نہیں ہیں ۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ شیخ رشید نے کہا کہ پیسہ برکت والا ہے جو 2006ءتک بڑھتا رہا ۔
نعیم بخاری نے بتایا کہ وزیر اعظم اور بچوں کے موقف میں تضاد ہے ، بچوں نے کہا گلف سٹیل مل کے بعد قطر میں سرمایہ کاری کی گئی مگر وزیراعظم نے کہا کہ گلف سٹیل مل کے بعد جدہ سٹیل مل خریدی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جائیداد میاں شریف کی تھی تو بٹوارہ سب کیلئے ہونا چاہیئے تھا اور اگر میاں شریف کی کوئی وصیت تھی تو وہ بھی سامنے آنی چاہیئے تھی ۔ قطری کا خط وزیر اعظم کے بچوں نے جمع کرایا ۔
جسٹس اعجاز نے استفسار کیا کہ کیا قطر میں سرمایہ کاری کا کوئی ریکارڈ موجود ہے تو نعیم الحق نے بتایا کہ قطر میں ہونے والی سرمایہ کاری کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ۔انہوں نے قطری شہزادے کا خط بھی عدالت میں پڑھ کر سنایا جس کے بعد عدالت نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا ۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں نیوز کانفرنس نہ کی جائے ۔ دنیا کے کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا ۔”عدالت کو سیاسی اکھاڑہ نہ بنائیں “۔نیوز کانفرنس کیلئے پورا پاکستان پڑا ہے۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ برطانوی کمپنیو کی ملکیت ثابت کرنا تحریک انصاف کی ذمہ داری ہے تاہم برطانوی کمپنیوں کی ملکیت ثابت کرنا آسان نہیں ہو گا ۔
نعیم بخاری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ شریف فیملی نے دبئی میں بے نامی کاروبار کیا ، 1974ءمیں دبئی فیکٹری کیلئے اراضی خریدی گئی ۔ دبئی فیکٹری کا 10فیصد منافع وہاں کی حکومت کو ملتا تھا ۔ 1978 ءمیں کل واجب الادا رقم 36ملین درہم تھی اور1978ءمیں 75فیصد شیئرز بیچ کر واجبات شریف فیملی نے دا کیے۔ 21ملین درہم بی سی سی آئی کو ادا کیے گئے تاہم 21ملین درہم بینک قرضے سے کم تھے جبکہ بینک کو 21ملین درہم دینے کے بعد 6ملین درہم واجب الادا تھے ۔
جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ آپکے خیال میں فیکٹری 15ملین خسارے میں تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے کہ رقم ادا کی گئی بقیہ 15ملین رقم کس نے ادا کی واضح نہیں ۔نعیم بخاری نے کہا کہ طار ق شفیع نے بیان حلفی میں کہا کہ کوئی پیسہ ادا نہیں کیا تو دبئی سے قطر رقم منتقلی کیلئے دراصل کوئی رقم تھی ہی نہیں ۔دبئی سٹیل مل کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا ؟تو نعیم بخاری نے کہا کہ شریف خاندا ن کے بقوم قرضہ لیکر کاروبار کا آغاز کیا ۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ جائزہ لیں گے کہ خسارہ کتنا تھا اور کیسے ہوا اور اس بات کا جواب شریف خاندان کو دینا ہوگا ۔ پہلے فروخت کے معاہدے پر خسارہ نظر نہیں آتا ۔ دبئی سے رقم منتقلی کیلئے بینک ٹرانزیکشن دیکھانا ہو گی ۔
جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ فروخت کے معاہدوں میں بینک گارنٹی موجود تھی َ کیونکہ بینک گارنٹی کا مطلب ہے کہ ٹرانزیکشن ہوئی ہے تاہم دیکھنا ہو گا رقم قطر گئی یا جدہ ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button