پاناما لیکس : خود فیصلہ کریں یا کمیشن بنایئں، کل تک بتائیں : سپریم کورٹ کی فریقوں کو ہدایت
وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں تقاریر سیاسی ، 40سال پرانا ریکارڈ کہا ں سے لا ئیں ، فیصل آبا د میں بھی اربو ں کا کاروبار پرچی پرہو تا ہے :وکیل وزیر اعظم ، یہ موقف خطرناک ہے ،جسٹس کھوسہ مریم کی قابل ٹیکس آمدن صفر، اخراجات 35لاکھ،جسٹس عظمت ،وزیر اعظم کوجواب دینا ہوگا:عدالت،فیصلے کیلئے دستاویزات ناکافی، شک کا فائدہ ملزم کو ہوتا ہے :چیف جسٹس
اسلام آباد(سپیشل رپورٹر،نیوز ایجنسیاں)سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس میں قرار دیا ہے کہ دونوں فریقوں کی جانب سے جمع کرائی گئی دستاویزات فیصلے کیلئے ناکافی ہیں، فریقین کل تک بتائیں کہ کیس کا فیصلہ خود ہی کریں یا کمیشن بنادیں۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں بینچ نے سماعت شروع کی وزیر اعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالت کے تین سوالات میں سے مریم نواز کی کفالت کے معاملے پر پہلے دلائل کا آغاز کیا۔انہوں نے ابتدائی دلائل میں کہا کہ مریم نواز وزیراعظم کی زیر کفالت نہیں ہیں۔والد بیٹیوں کو تحائف دیتے ہیں۔جسٹس عظمت سعید نے ان سے استفسار کیا کہ وزیر اعظم نے بیٹی کے لیے زمین کس سال خریدی؟ اس پروزیر اعظم کے وکیل سلما ن اسلم بٹ نے کہا زمین 9 اپریل 2011 کو خریدی گئی ،ساتھ ہی فاضل وکیل نے اراضی کی مالیت عدالت کو فراہم کی۔اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ پہلے آپ نے رقم ادا کی اور اسے تحفہ ظاہر کرتے ہوئے اپنے ٹیکس میں دکھایا۔ اگلے سال وہ واپس کر دی گئی اور اسے ادا کرنے والے نے اپنے گوشوارے میں دکھا دیا جو کہ عام طور پر ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کے معاملات میں ہوتا ہے ۔ یہ آپ کو بھی پتہ ہے کہ کیا ہوا اور ہمیں بھی پتہ ہے ۔جسٹس عظمت سعید نے مریم نواز کی کفالت سے متعلق استفسار کیا کہ مریم نواز کے اخراجات کہاں سے اور کیسے پورے ہوتے ہیں، کیونکہ ٹیکس گوشوارے کے مطابق مریم نواز کی قابل ٹیکس آمدن صفر ہے ۔وکیل نے بتایا کہ ان کی زرعی آمدن ہے ، اس سال مریم نواز کی زرعی آمدن 21 لاکھ 68426 روپے تھی ،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ مریم نواز کے سفری اخراجات تو 35 لاکھ روپے تھے ، آپ نے قانونی ایشو کو ایڈریس کر نا ہے ہم کہا ں تک جا سکتے ہیں اور قانون کیا ہے اس سے ہم آنکھیں بند نہیں کر سکتے ،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مریم نواز کوئی ملازمت نہیں کرتیں ، میں جو سمجھا ہوں کہ مریم نواز کی زرعی آمدن کے علاوہ اور کوئی مستقل ذریعہ آمدن نہیں ہے ۔ان کے ذرائع آمدن باپ سے یا تحفہ یا زرعی اراضی ہے ، وکیل سلمان بٹ نے کہا کیپٹن صفدر کی زرعی زمین 160 کینال ہے ، جسٹس عظمت سعید نے کہا عدالت زیر کفالت کے معاملے کو دیکھ رہی ہے ۔ یہ ابھی حل نہیں ہوا ۔ آپ کفا لت کے معا ملے پر بتائیں کہ مریم کے شنا ختی کارڈ میں کیا ایڈریس درج ہے ، تو فاضل وکیل نے کہا مریم نواز جاتی امرا میں رہتی ہیں اور ان کا جاتی امرا کا ہی ایڈریس ہے ، جاتی امرا میں بہت سے خاندان رہتے ہیں ،جسٹس عظمت نے استفسار کیا کہ کیا جاتی امرا کی زمین مریم نواز کے نام ہے وہ جگہ تو اس کے نام نہیں ہے ،یہ معاملہ کفا لت کا ہے اور ہم اس کو دیکھیں گے ،وکیل وزیر اعظم نے کہا پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے واجبات اور اثاثوں کو آپس میں ملا دیا ، جن کو کلیئرکرنا ہے ۔اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اور بھی بہت ساری چیزوں کو کلیئر کرنا ہے ۔ وزیر اعظم کے وکیل نے عدالت سے سوال کیا کہ اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کو گھر میں رہنے کی اجازت دے تو کیا وہ اس کی زیر کفالت قرار دی جائے گی؟ اس پر عدالت نے کہا کہ ایسا ضروری نہیں ہے اگر مریم نواز کی باقاعدہ زرعی زمین سے آمدنی ہے تو پھر والد کے تحفوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔سلمان اسلم بٹ نے کہا تو جب وہ زیر کفالت نہیں ہیں تو وزیر اعظم کو ان کے تمام اثاثے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ان کے اثاثے کیپٹن صفدر نے اپنی اہلیہ کے طور پر ظاہر کیے ہیں جن پر مقدمہ ماتحت عدالت اور الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے ۔ اس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ان سماعتوں کی کاپیاں فراہم کی جائیں۔جسٹس عظمت سعید نے سلمان اسلم بٹ سے کہا کہ مریم نواز کے زیر کفالت ہونے کے معاملے میں آپ کے دلائل نکتہ حل نہیں کر پائے ۔وکیل وزیر اعظم نے کہا آف شور کمپنیوں کی مریم نواز ٹرسٹی ہیں ،حسین نواز آف شور کمپنیوں کے بینیفشل مالک ہیں ۔ حسین نواز اور مریم نواز دونو ں ہی یہ مو قف اپناتے ہیں ، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس موقف سے درخواست گزار نے اتفاق نہیں کیا ، اس معاملے کا فیصلہ یہاں نہیں ہو سکتا ، کیو نکہ دونو ں فریقین نے اس با رے میں مختلف مو قف اپنایا ہے ،ہو سکتا ہے دستاویز کے جائز ے کے لیے کمیشن بنانا پڑے ،دونوں فریقین اپنی دستاویزات پر انحصار کر رہے ہیں ،ہمارے لیے دستاویزات کا جائزہ لینا ممکن نہیں ،اس لیے کمیشن بنانے کا باب کھلا رکھا ہے ،وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ معاملہ الیکشن کمیشن اور ہائی کورٹ میں ہے تو جسٹس آصف سعید نے کہا دونوں فورمز پر معاملہ زیر التوا ہے تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ 184/3کے ذریعہ مداخلت نہ کرے ،جسٹس عظمت سعید نے کہا کیا ٹرسٹی کو کمپنیوں کا ٹیکس نہیں دینا پڑتا ، وکیل سلمان بٹ نے کہا دونوں کمپنیاں آف شور ہیں اس لیے ٹیکس ادائیگی کا معاملہ نہیں ،برطانوی قانون میں ایسے ٹرسٹ کی اجازت ہوتی ہے جس کی رجسٹریشن کی ضرورت نہیں تھی،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا بعض دستاویزات کے مطابق مریم تو بینی فشل مالک ہیں ،دستاویزات میں لکھا ہے کہ کمپنی کو کسی ٹرسٹ کا علم نہیں ، وکیل نے اس پرکہا کہ برطانیہ میں ٹرسٹ کا قانون بڑا لچکدار ہے ،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ ایک پرائیویٹ انڈرسٹینڈنگ ہے ،کیا ٹرسٹ بنانے کے معاملے پر موسیک کمپنی کو آگاہ نہیں کر نا چاہیے تھا ،وکیل کا کہنا تھا کہ موسیک کو آگاہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی ،بڑے بڑے بحری بیڑے پاناما میں رجسٹرڈ ہیں ،جسٹس اعجاز الا حسن نے کہا کہ موسیک نے کس بنیاد پر مریم کو بینی فشل مالک قرار دیا ہے ، وکیل نے کہا مجھے ایسی کسی دستاویز کا علم نہیں ۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا نعیم بخاری کا مو قف تھا کہ ٹرسٹی کا بھی فرض ہے کہ وہ ڈیوٹی ادا کر ے جبکہ ٹرسٹ ڈیڈ کاایچ ایم آر سی نامی ادارے سے یو ٹی آر لینا پڑتا ہے ،چیف جسٹس نے کہا جب دونو ں فریق ایک دستا ویز کو تسلیم کر تے ہیں تو کیا تیسرا فریق چیلنج کر سکتا ہے ، وکیل وزیر اعظم نے کہا اگر ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں زبانی بھی کہہ دیا جائے تو اس کو ما ننا پڑتا ہے ، اب میں وزیر اعظم کی تقریر میں مبینہ تضاد پر بات کروں گا اور اسی دوران انہو ں نے وزیر اعظم کی تقاریر کے مواز نہ کے حوالے سے ایک چا رٹ بھی پیش کیا،جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ پر بات ابھی ختم نہیں ہوئی ،کیا آپ کوومبر کمپنی اور دیگر دستاویزات سے انکاری ہیں ، وکیل نے کہا کہ اس پر میں بعد میں بحث کروں گا ،جسٹس کھوسہ نے کہا ہمیں تو پریکٹس میں بتایا گیا تھا کہ اگرجج سوال کرے تو اس کاجواب دیاجائے اور یہ کہتے ہیں کہ بعد میں بحث کروں گا۔اس پروکیل سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ استادیہ بھی کہتے ہیں کہ اس طرح کی صورتحال میں ایشو کو تھوڑا ٹچ کرکے آگے نکل جائیں ،فا ضل وکیل نے کہا کہ گلف سٹیل ملز کے مجموعی واجبات نعیم بخاری نے 36ملین درہم بتائے ،21 ملین درہم بینک کو دے کر باقی 14اعشاریہ 6 ملین درہم واجبات ادا کیے ،گلف سٹیل ملزکے باقی واجبات قسطوں میں ادا کیے گئے ،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیا باقی کے واجبات طارق شفیع نے ادا کیے ،جس پر وکیل نے جواب دیا کہ طارق شفیع نے واجبات ادا کیے ،جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ خسارے کی فیکٹری سے واجبات کیسے ادا کیے ،وکیل نے کہا کہ 1978میں نئی انتظامیہ آنے کے بعد فیکٹری منافع میں چلی گئی ،عدالت نے کہا ریکارڈ کدھر ہے تووزیر اعظم کے وکیل نے کہا کہ چالیس سال پرانا ریکارڈ کہاں سے لائیں ،فیکٹری کے 75 فیصد شیئرز کا معاہدہ موجود ہے ،دبئی کے بینک صرف پانچ سال کا ریکارڈ رکھتے ہیں اور انگلینڈ کے بینک چھ سال کا ریکارڈ رکھتے ہیں ،انیس سو اسی کا ریکارڈ کہاں سے لائوں،1999میں تمام ریکارڈ قبضے میں لے کر سیل کردیا گیا تھا ، ہم نے ریکارڈ کے حصول کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی ،دوہزار بارہ میں ہائی کورٹ نے ریکارڈ دینے کا حکم جاری کیا ،عدالتی حکم کے باوجود پورا ریکارڈ نہیں ملا ،ریکارڈ نہ دینے پر نیب کو عدالت نے جرمانہ بھی کیا ۔کمپنیوں کی بک ویلیو کچھ اور جبکہ اصل قیمت کچھ اور ہوتی ہے ،دستاویزات بک ویلیو پر تیار ہوتی ہیں ،بڑے بڑے شہروں میں کاروبار پرچی پر ہوتا ہے فیصل آباد میں آج بھی اربو ں روپے کا کاروبار پرچی پر ہوتا ہے ،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کا یہ موقف بڑا خطرناک ہے آپ یہ نہ کہیں کسی چیز کا ریکارڈ نہ رکھنا خطرنا ک ہے ،وزیر اعظم کے وکیل نے کہا کہ 1978میں نواز شریف طالب علم تھے پوری کہانی میں نواز شریف کا ذکر نہیں ہے ،نواز شریف کا نام نہ تو پاناما کیس میں ہے نہ ہی کسی متعلقہ دستاویز میں ہے ، ہمارا تو ریکارڈ ہی 1999میں سیل ہو گیا تھا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس پر کہا کہ وزیر اعظم نے تو کہا تھا کہ سارا ریکارڈ ہما رے پاس موجود ہے ،اس پر وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ جنا ب ہمارا ریکارڈ سیل ہو گیا تھا ،جسٹس آصف سعید کھو سہ نے کہا کہ عوامی عہدہ رکھنے پر ایسی مشکلات تو ہوتی ہیں ،وزیر اعظم کے وکیل نے عدالت کی جانب سے اٹھائے گئے دوسرے سوال جوکہ وزیر اعظم کی تقاریر سے متعلق تھا کے حوالے سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کی 22 اپریل 2016 کی تقریر کے تین حصے تھے جن میں دبئی، جدہ اور برطانیہ کا ذکر تھا۔ اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اس میں قطر کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ سلمان بٹ نے اس پر کہا کہ سیاسی لوگ سیاسی تقاریر کرتے ہیں ، وزیراعظم کا بیان سیاسی تھا عدالتی نہیں، اسے عدالتی شہادت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عوام کے سامنے دیئے بیان کو عدالت میں بھی ثابت کیا جائے ۔اس پر وزیر اعظم کے وکیل نے کہا یہ ٹرائل کورٹ نہیں ہے جس پر عدالت نے کہا معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ہمیں یہ سب کرنا پڑ رہا ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سارے معاملے میں بزنس اور پیسے دادا سے پوتی اور پوتوں کو منتقل ہوئے اور اس میں آپ کے موکل کا کوئی ہاتھ نہیں تھا؟ وزیر اعظم کے وکیل نے کہا ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کو علم ہو ،تمام امور میاں شریف کنٹرول کرتے تھے ۔وکیل نے کہا وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا تھاکہ 1999میں ریکارڈ ضبط کرلیا گیا تھا ، بارہ ملین درہم تین اعشاریہ چھ ملین ڈالر بنتے ہیں ،دوبارہ اثاثے قومیانے سے بچانے کے لیے باہر رکھے ،جسٹس اعجاز الا حسن نے کہا کہ مشکل بات ہے کہ قطر میں سرمایہ کاری کا ریکارڈ ہی نہیں ،رقم کی قطر منتقلی کا بھی ریکارڈ نہیں ،وکیل نے کہا سرمایہ کاری شریف فیملی نے کی تھی ،شریف فیملی کا مطلب نواز شریف نہیں ہے ،جسٹس اعجاز الا حسن نے کہا قطری سرمایہ کاری سے متعلق امور کیسے طے پائے ،وزیر اعظم کے وکیل نے اس پر کہا کہ اس زمانے میں کام کیش پر بہت کم ہوتا تھا ،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیر اعظم نے تقریر میں کہا دبئی جدہ کا ریکارڈ موجود ہے ،کیا وزیر اعظم نے درست نہیں کہا ،عدالت قانون سے ہٹ کر فیصلہ نہیں کرتی ،وزیر اعظم نے تقریر میں خود کہا کہ تمام ریکارڈ دستیاب ہے ،فاضل جج نے کہا وزیراعظم کا احترام اپنی جگہ لیکن سوال پوچھتے رہیں گے ۔ وزیراعظم کو جواب دینا ہوں گے ۔وزیر اعظم ہمارے بھی وزیر اعظم ہیں ،وزیر اعظم اور ان کی فیملی ہمارے لیے محترم ہے لیکن وضاحت دینا ہو گی ،وضاحت کے دوران ان کی عزت و تکریم پر کوئی بات نہیں ہونی چاہیے ،جب تک الزام ثابت نہیں ہوتا وہ قابل احترام ہیں۔ اگر یہ مان لیں کہ ابا جی نے یہ کام کیا اور مجھے نہیں معلوم تو اس کے کیا اثرات ہوں گے ؟اس پر وزیر اعظم کے وکیل نے کہا جو ریکارڈ تھا پیش کردیا ،مزید دستاویزات بھی پیش کرسکتے ہیں ،وزیر اعظم کی تقریر میں کوئی تضاد نہیں ،جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ یہ جو بات کہہ رہے ہیں بہتر ہوتا کہ عوام میں بھی یہی بات کہہ دیتے ،آج آپ کہہ رہے ہیں کہ تقریر سیاسی تھی ،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ تمام زندگی کا ریکارڈمحفو ظ رکھنا ممکن نہیں ،کیا عدالت کے سامنے یہ جواب مناسب ہے ،1980 میں آپ کے پاس بارہ ملین درہم تھے وہاں سے بات شروع کریں ،فاضل جج نے کہا راجا پرویز اشرف توہین عدالت میں پیش ہوئے ،عدالت نے ان کو پوری عزت دی لیکن ان سے بھی سوا ل پوچھے ،وزیر اعظم کے وکیل نے کہا ہم بھی عدالت کے سوالوں کا جواب دیں گے ،جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا تمام باتوں کا جواب عدالت میں دینا چاہیے ،عدالت میں دلائل کم اور میڈیا پر زیادہ ہوتے ہیں ،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا وزیر اعظم نے کہا کہ جدہ سٹیل ملز کے پیسے بچوں کو کاروبار کے لیے دیئے ،وزیر اعظم کے وکیل نے کہا وزیر اعظم نے یہ تو نہیں کہا کہ بچوں نے اس وقت کاروبار کیا اور یہ بھی نہیں کہا کہ حسن اور حسین نواز نے اس کو نئے کاروبار کے لیے لگایا ،کیا شریف خاندان کے 1980سے آج تک کے امور کا کھوج لگانا ہے ۔ عدالت نے خود ہی کہا تھا کہ شریف فیملی کے 1980سے لیکر آج تک کے معاملات کا کھو ج نہیں لگا سکتے تو جسٹس آصف سعید نے کہا بالکل ہر چیزکا کھوج نہیں لگایا جاسکتا ،ایک انٹرویو میں وزیر اعظم نے 1997 میں اپنا نام بزنس سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا تھا ،یہ انٹرویو شاید کاشف عباسی نے نشر کیا تھا ،اس کے بعد عدالت میں کا شف عبا سی پیش ہوئے اور انہو ں نے بتایا کہ یہ انٹرویو میں نے نہیں کیا بلکہ اس کا کچھ حصہ اٹھایا تھا جس میں وزیرا عظم نے کہا تھا ہم خود کو کاروبار سے الگ کر لیں گے ، یہ انٹرویو حامد میر نے کیا تھا ،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہمیں اس انٹرویو کی سی ڈی فراہم کی جائے ،چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان اور آپ(وکیل وزیر اعظم) نے جو دستاویزات عدالت میں جمع کرائی ہیں وہ کوئی بھی فیصلہ دینے کے لیے ناکافی ہیں، لہٰذا اس معاملے کی تحقیق کے لیے کیوں نہ کمیشن بنا دیا جائے ۔نعیم بخاری نے انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کی دستاویزات لگائیں ، ایسی دستاویز کو شواہد تسلیم نہیں کیا جاتا۔جسٹس عظمت سعید نے کہا بیانیہ اور دستاویزات پڑھیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ وزیراعظم کے وکیل کی طر ف سے سوالوں کے جواب نہیں آئے ۔جسٹس کھوسہ نے کہا انصاف کا تقاضا ہے کہ اس معاملے کی تفتیش کی جائے ۔وزیر اعظم کے وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم کا پاناما اور حدیبیہ پیپرز ملز میں نام نہیں ہے ،جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عمران خان ٹرسٹ ڈیڈ تسلیم نہیں کرتے ،آپ کو اس اعتراض پر وضاحت دینا ہو گی ،اس پر جھگڑا نہیں کہ فلیٹ کس کی ملکیت ہیں ،آپ کا موقف ہے کہ 2006 میں یہ کمپنیاں حسین نواز کے پاس آگئیں ،منرواکمپنی کو سروس دینے کا کس نے کہا ،کمپنی کے حوالے سے دستاویزات عدالت کو نہیں دی گئیں یہ منروا کمپنی کس کی ملکیت ہے اس بارے نہیں بتایا گیا ،جب اس منروا کمپنی کی ملکیت کا ہی ہم کو پتہ نہیں تو ہم فیصلے میں کیا لکھیں، جسٹس آصف سعیدکھو سہ نے کہا کہ قطری خط کی تصدیق ضروری ہے ، ہم ان متنازعہ کاغذات کی بنیاد پر منتخب وزیراعظم کو گھر نہیں بھیج سکتے ۔ہم نے اس کیس میں اپنی تسلی کر نی ہے ،تشنگی کی بنیاد پر فیصلے نہیں دے سکتے ۔سیاست میں انتظارہوسکتا ہے لیکن انصاف پر سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ حاکم وقت کو حساب دینے کیلئے عدالت لایا گیا ہے جو اسلامی تاریخ میں روشن مثال ہے ۔ فیصلہ ان کے حق یا خلاف دینے سے ہچکچائیں گے نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فوجداری کیسوں میں ثبوت بڑا مضبوط ہوتا ہے اور اگر اس میں ذرا بھی شک آجائے تو اس کا فائدم ملزم کو جاتا ہے ،دستاویزی شواہد میں دونوں طرف سے گیپس ہیں۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ہم تو وزیر اعظم کی نا اہلی چا ہتے ہیں تو چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ وزیر اعظم کی نا اہلی چا ہتے ہیں تو وہ فورم آپ کے پاس موجود ہے وہ آپ حاصل کر چکے ہیں ،یہ پٹیشن پاناما لیکس کے تنا ظر میں دا خل کی گئی ،جسٹس کھو سہ نے کہا ابھی تین چار لیگل ایشوز پر بات نہیں ہوئی، ہمارے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے اور یہ مقدمہ با زی مستقبل کے لیے بڑی اہم ہو گی ۔ چیف جسٹس نے فریقین سے کہا کہ اگر کمیشن کے معاملے پر آپ فیصلہ کر لیں تو ہم کمیشن بنا دیں گے اور کمیشن کو بھی مہینوں کا وقت نہیں دیں گے ، اگر جما عت اسلامی کے سینیٹر سراج الحق کے الزامات پر کمیشن بنا ئیں تو ان کا 20سال میں بھی فیصلہ نہیں آئے گا ہم عمران خان کی پٹیشن کے حوالے سے ہی کمیشن بنائیں گے ۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو محدود دائرہ کار کا کمیشن بنا کر سامنے لایا جا سکتا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کمیشن بنا تو اس کا دائرہ کار محدود ہو گا ،کمیشن سپریم کورٹ کے جج پر مشتمل ہو گا ،اس کو تمام اداروں کی معاونت حاصل ہو گی،کمیشن اپنی رپورٹ بینچ کو دیگا۔جسٹس کھو سہ نے فریقین سے کہا کہ اگر آپ کہتے ہیں کہ کمیشن نہ بنائیں اور اسی طرح ہی معاملہ چلائیں تو سوچ لیں دونو ں فریقین کے لیے خطرہ ہوگا ،ہم اپنی اور فریقین کی تسلی کے لیے اس کا فیصلہ کر یں گے ،فریقین کے وکلا کی جانب سے کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے جواب دینے کے لیے مہلت ما نگی گئی تو اس پر عدالت نے سماعت 15منٹ کیلئے ملتوی کردی۔بعدازاں دوبارہ سماعت پرتحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ ہمیں مشا ورت کے لیے دو روز کی مہلت دی جائے ۔ وقفے کے بعد جب عدالت نے رائے طلب کی تو اس وقت کمرہ عدالت میں وزیر اعظم اور ان کے بچو ں کے وکلا موجود نہیں تھے ۔عدالت کو بتایا گیا کہ وکلا اور اٹارنی جنرل کمیشن کی تشکیل کے معا ملے پر وزیر اعظم سے مشاورت کر نے گئے ہیں جس پر عدالت نے مزید سماعت 9دسمبر تک ملتوی کر تے ہوئے فریقین کے وکلا سے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے کمیشن کی تشکیل کے معاملے پر رائے طلب کر لی ۔