پارٹی سربراہ کے لئے قانون ہے کہ وہ آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا اترے، سپریم کورٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نوازشریف کی پارٹی صدارت کے کیس کے تفصیلی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ سابق وزیراعظم کو 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا جس کے بعد وہ اپنی جماعت کے صدر نہیں رہ سکتے تھے۔
نوازشریف کی پارٹی صدارت کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری
گزشتہ ماہ چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے الیکشن ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی تھی اور 4 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلے میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ حاکمیت اللہ تعالی کے پاس ہے اور اختیار اللہ تعالی کے احکامات کے مطابق مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 17کے تحت سیاسی جماعت بنانا ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن یہ اختیار ملک کی سلامتی ،خود مختاری ،بقا اور اخلاقیات کے تابع ہے، پارلیمانی نظام حکومت میں پارٹی صدر کو کلیدی مقام حاصل ہے اس لئے ایک نااہل شخص کو پارٹی صدر نہیں بنایا
جا سکتا-
سپریم کورٹ نے نوازشریف کی پارٹی صدارت کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے، 51 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے تحریر کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں نشستوں کے اعتبار سے سب سے بڑی جماعت ہے اور اس نے اکثریت کی بنیاد پر حکومت قائم کی، جماعت کے صدر نوازشریف تھے۔
فیصلے میں بتایا گیا کہ 3 اپریل 2016 کو آئی سی آئی جے کی طرف سے پاناما کیس سامنے آیا جس کے بعد دنیا بھر کے اخبارات میں پاناما سے متعلق خبریں شائع ہوئیں، دنیا کے مختلف ممالک کی شخصیات کی آف شور کمپنیاں سامنے آئیں اور پاناما لیکس کی وجہ سے متعدد عالمی رہنماؤں نے استعفے بھی دیے۔ آف شورکمپنیوں پراس وقت کےوزیراعظم نواز شریف کےبچوں کےنام بھی سامنےآئے، نواز شریف نے قوم سے خطاب اور پارلیمنٹ کے اندر مختلف وضاحتیں پیش کیں، متضاد بیانات کی وجہ سے نواز شریف لوگوں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے کچھ لوگ پٹیشن لےکر سپریم کورٹ آئے، سپریم کورٹ میں 20 اپریل 2017 کو پاناما کیس کے حوالے سے 2 ججز نے نوازشریف کا نااہل جب کہ 3 ججز نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا، جے آئی ٹی نے 60 دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کی اور رپورٹ کی بنیاد پر نواشریف کو 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا گیا۔ اس عرصے کے دوران نوا زشریف اپنی پارٹی کے صدر رہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی تھیں جس میں کہا گیا تھا کہ ان کی جانب سے جو تجاویز الیکشن ایکٹ 2017 کے لئے دی گئی تھیں انہیں شامل نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ کا کہنا کہ الیکشن ایکٹ 2017 اور دیگر قوانین کے تحت ہر شخص سیاسی جماعت تشکیل دے سکتا ہے لیکن اس کے لئے اسے آرٹیکل 62 اور 63 پر بھی پورا اترنا ہوتا ہے اور اس کی اہلیت کا معیار بھی پرکھا جاتا ہے، کیوں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت آئندہ کامیاب ہوکر ملک کی باگ ڈور سنبھال سکتی ہے اور اس جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین اہم عہدوں پر فائز ہوسکتے ہیں اس لئے پارٹی کے سربراہ کے لئے بھی یہی قانون ہے کہ وہ آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا اترے۔ چوں کہ نوازشریف کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا اس لئے نااہلی کے بعد وہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نہیں رہ سکتے تھے۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ عدالتیں قانون کے مطابق کام کررہی ہیں، عدالت پہلے قرار دے چکی ہے کہ ماتحت قانون کے ذریعے آئین کو بائی پاس نہیں کیا جاسکتا، لوگوں کو دیدہ دانستہ فائدہ پہنچانے کے لیے آئینی شقوں سے انحراف نہیں کیا جاسکتا، ایک شخص کے لیے کی گئی قانون سازی عدالت کوآنکھیں دکھانے کے مترادف ہے، الیکشن ایکٹ کی شق 232 اور 203 کوآئین سے ہٹ کر پڑھا جائے تو سیاسی جماعتوں کو ریموٹ سے چلانے کے دروازے کھلیں گے، اس سے مقننہ کو ایسے لوگ کنٹرول کریں گے جو آئین کےتحت پارلیمنٹ کاحصہ نہیں بن سکتے، یہ ایک طے شدہ اصول ہےجو کام براہ راست نہیں کیا جاسکتا وہ بالواسطہ بھی نہیں کیا جاسکتا، اس لئے جوشخص بادشاہ بننے کے لیے نااہل ہو اسے بادشاہ گر بننے کے لیے بھی فری ہینڈ نہیں دیا جاسکتا، نااہل کا انتخابی عمل سے گزرے بغیر بطور پپٹ ماسٹر سیاسی طاقت استعمال کرنا آئین سے کھلواڑ ہے۔