ویڈیو ریکارڈنگ روکنے کے حوالے سے حسین نواز کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
اسلام آباد (نیوز وی او سی) سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کیس کی جے آئی ٹی کی جانب سے حسین نواز کی تصویر لیک ہونے اور دوران تحقیقات ویڈیو ریکارڈنگ روکنے کے حوالے سے حسین نواز کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کے دلائل پر اٹارنی جنرل سے جائزہ جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آج ساڑھے 11بجے تک ملتوی کردی ہے۔ دوران سماعت عدالت نے قرار دیا کہ جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے میں کوئی مضائقہ نہیں، ویڈیو ریکارڈنگ سے کسی کے حقوق متاثرنہیں ہوتے ویڈیو ریکارڈنگ کا اصل مقصد درست متن حاصل کرنا ہے، ویڈیو ریکارڈنگ ہو بھی جائے تو بھی زبانی بیان کی اہمیت ہوتی ہے کوئی گواہ تحقیقات کے بعد عدالت میں بیان تبدیل نہیں کرسکتا، بدھ کو جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے کیس کی سماعت کی، اس موقع پر وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل نے جے آئی ٹی کو درپیش مشکلات اور حسین نواز کی تصویر لیک ہونے سے متعلق جوابات عدالت میں جمع کرائے، عدالت کو حسین نوازکے وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ قانون کے تحت کسی کا بیان لینے کے دوران ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں، لیکن اس کے باوجود جے آئی ٹی کی جانب سے بیانات کی ویڈیو ریکارڈنگ کی جارہی ہے، بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے ان سے کہا کہ وہ عدالت میں ویڈیو ریکارڈنگ پر دلائل دیں یہ ایک قانونی سوال ہے، جس کی وضاحت ہونی چاہئے، جس پر فاضل وکیل نے موقف اپنایا کہ جے آئی ٹی نے خود حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کا اعتراف کرلیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ جے آئی ٹی کا سی سی ٹی وی کیمروں پر کنٹرول نہیں، میں عدالت کو تصویر لیک ہونے کے اثرات سے آگاہ کرکے واضح کروںگا، کہ اگر ویڈیو لیک ہوئی تو اس کے اثرات موجودہ صورتحال سے کہیں زیادہ ہوں گے، کل نواز شریف کی جے آئی ٹی میں پیشی کی ریکارڈنگ لیک ہوسکتی ہے اس کا کون ذمہ دار ہوگا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ان سے کہاکہ عدالت نے جائزہ لینے کیلئے جے آئی ٹی رپورٹ کی کاپی اٹارنی جنرل کو فراہم کردی ہے تاہم اب تصویر لیک ہونے کی رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ اٹارنی جنرل کریں گے، وہ ہمیں بتائیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو پبلک کرنا ہے تو اٹارنی جنرل نے حسین نواز کے وکیل سے کہا کہ وہ ان کے چیمبر میں آکر جے آئی ٹی رپورٹ کا جائزہ لیں، فاضل وکیل نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ ضابطہ فوجداری میں تحقیقات کا طریقہ کار موجود ہے جس کے دفعہ 161 کے تحت کسی سے زبانی تحقیقات کی جاسکتی ہیں اور ان تحقیقات کو بوقت ضرورت تحریری بھی کیا جاسکتا ہے، یا تمام بیانات کا الگ الگ ریکارڈ بھی بنایا جاسکتا ہے لیکن یہ امر واضح ہے کہ قانون ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں دیتا، ویڈیو ریکارڈنگ کے دوران گواہ پر خوف طاری رہتا ہے اس طرح ویڈیو بیان کو بطور شواہد بھی استعمال نہیں کیاجاسکتا، خواجہ حارث نے مزید کہاکہ تحقیقات کے دوران جس کا بیان لیا جائے اس پر ضابطہ فوجداری کے دفعہ161 کے تحت دستخط ہونا ضروری ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ تحقیقاتی ٹیم اپنے طور پر کوئی طور طریقہ کار اپنا کر اس پر عمل کرے، کیونکہ عدالت نے جے آئی ٹی کو ضابطہ فوجداری، نیب اور ایف آئی اے قانون کے تحت اختیارت دیئے ہیں اور جے آئی ٹی عدالتی فیصلے کے تحت ضابطہ فوجداری کی پابند ہے، جسٹس اعجاز افضل نے ان سے کہاکہ دفعہ 161 کا بیان بطور ٹھوس ثبوت تسلیم نہیں ہوسکتا وہ صرف بیانات میں تضاد جانچنے کیلئے استعمال ہوسکتا ہے، تاہم ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا کہ ہم بیانات کا جائزہ لینا شروع کردیں، ویڈیو ریکارڈنگ ہو بھی جائے توبھی زبانی بیان کی اہمیت برقرارہے، فاضل جج نے مزید کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ سے کسی کے حقوق متاثر نہیں ہورہے، اس سے بیان کی حیثیت بھی تبدیل نہیں ہوتی ریکارڈنگ کا بنیادی مقصد درست متن حاصل کرنا ہوتا ہے کسی بھی ویڈیو بیان کو قانون کے مطابق نافذ کرنا ہوتا ہے اور ویڈیو بیان بحیثیت خود کوئی ثبوت نہیں ہوتا، خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ درست ریکارڈ ویڈیو ریکاڈنگ سے پہلے بھی مرتب کیا جاتا تھا، تو ویڈیو ریکارڈنگ کی کیا ضرورت پیش آئی تو فاضل جج نے کہا کہ آج ہم 1896ء کے دور میں نہیں رہ رہے، جدید دور میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا بری بات نہیں، حسین نواز کے وکیل نے کہا کہ کسی سے زبردستی اقبال جرم نہیں کرایا جاسکتا، لیکن ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے ایسا ہی کیا جارہا ہے، حالانکہ گواہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے بیان دینے کیلئے آزاد ہوتا ہے دوسری جانب اگر ریکارڈنگ بطور ثبوت استعمال نہیں ہوسکتی تو اس کے کرنے کی ضرورت کیا ہے، نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کا فیصلہ قانون سازوں نے کرنا ہے میں ریکارڈنگ کے نفسیاتی پہلو کی نشاندہی کررہا ہوں کہ ویڈیو ریکارڈنگ سے بندہ پرخوف طاری ہو تا ہے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ دفعہ 161 کا بیان صرف جرح کیلئے استعمال ہوسکتا ہے، ویڈیو بیان ہو یا تحریری، اسے قانون کے مطابق جانچا جاتا ہے، خواجہ حارث نے کہاکہ جے آئی ٹی میں گواہان پر بیان تبدیلی کے لئے دبائو ڈالا جا رہا ہے عدالت کو ویڈیو ریکارڈنگ کا جائزہ لینا چاہیے، کہ کہیں ریکارڈنگ میں ٹمپرنگ تو نہیں ہوئی، خود جے آئی ٹی بھی کہتی ہیے کہ عدالت ویڈیو ریکارڈنگ کا عدالت جائزہ لے، سوال یہ ہے کہ اگر ویڈیو ریکارڈنگ میں ٹمپرنگ ہوجائے تو اسکے کیا نتائج ہونگے، ویڈیو سے ہی تصویر کا سکرین شاٹ لیک ہوا، اس لئے کل ویڈیو بھی لیک ہوسکتی ہے، ویڈیو لیک ہوئی تو کون ذمہ دار ہوگا، جے آئی ٹی نے تصویر لیک کی ساری ذمہ داری ایک بندے پر ڈال دی ہے ایسے حالات میں کیا گارنٹی ہے کہ وزیراعظم کی ویڈیو لیک نہیں ہوگی، اگر کل وزیر اعظم کی ویڈیو سوشل میڈیا پر آگئی تو کون ذمہ دار ہوگا، جے آئی ٹی اپنی حرکتوں پر خود کیسے جج بن سکتی ہے، میری استدعا ہے کہ جے آئی ٹی کو ویڈیو ریکارڈنگ سے روکا اور تصویر لیک کے معاملے پرکمشن بنایا جائے، عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے ویڈیو ریکارڈنگ کیلئے عدالت سے اجازت نہیں لی یہ طریقہ جے آئی ٹی نے خود اختیار کیا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے فاضل وکیل سے کہا کہ عدالت کہہ چکی ہے کہ ویڈیو ریکارڈنگ عدالت میں پیش نہیں ہوسکتی، لیکن اس کے باوجود تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے بہت کچھ کیا جارہا ہے، بظاہر تحقیقات کو کمزورکرنے کی کوشش کی گئی ہے، سمجھ نہیں آتی کہ ویڈیو ریکارڈ سے جواب گزار کا کیا نقصان ہوگا، حالانکہ یہ ریکارڈنگ نقصان کی بجائے فائدہ پہنچا سکتی ہے، فاضل وکیل نے کہاکہ ویڈیو ریکارڈنگ سے بندے پر خوف طاری ہوتا ہے، اور ویڈیو ریکارڈنگ کسی کے ہاتھ بھی لگ سکتی ہے، بتایا جائے کہ جی آئی ٹی کو اتنی سہولیات کیوں دی جارہی ہیں، جسٹس شیخ عظمت نے فاضل وکیل سے استفسار کیا کہ تصویر لیک سے آپ کو کیا نقصان پہنچا ہے ہمیں بتایا جائے نقصان والی سٹوری سمجھ نہیں آتی، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ تصویر میں ایک شخص آزادی کے ساتھ کرسی پر بیٹھا ہے ریکارڈنگ تو یہاں عدالت میں بھی ہوتی ہے کیا کل آپ اس پر بھی اعتراض کریںگے، خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے اٹارنی جنرل کو جے آئی ٹی کا جواب اور خواجہ حارث کی دلائل کا جائزہ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے ویڈیو ریکارڈنگ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ اے این این کے مطابق جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ جے آئی ٹی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے، عوام کی رائے کی پرواہ کئے بغیر قانون پر فیصلہ دیں گے، خطرے بھی ہمیں راستے سے نہیں ہٹا سکتے، فیصلے کے وقت عدالت کی توہین کرنے والے افراد کو بھی ڈیل کریں گے۔ جسٹس اعجاز افضل نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرکے کہا کہ جے آئی ٹی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے، جے آئی ٹی کے تحفظات کا تفصیلی جائزہ لیں، رکاوٹوں کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ جو ہو رہا ہے ہمیں سب پتہ ہے، ہمیں کسی کی پروا نہیں، اس طرح کی دھمکیاں ہمیں راستے سے نہیں ہٹا سکتیں، اس طرح کی مہم ہم پر اثرانداز نہیں ہو سکتی، ہمیں کوئی ڈرا اور دھمکا نہیں سکتا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی کے الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں۔ ایک موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اعتراضات قانونی کم اور سیاسی زیادہ لگتے ہیںجو جے آئی ٹی کے کام میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے وہ سپریم کورٹ کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہمیں دکھ ہوا کہ فیصلہ پڑھے بغیر تنقید کرتے ہیں، بدقسمتی سے میڈیا کے ذمہ داران بھی جھوٹ بول رہے ہیں، بہتر ہو گا میڈیا پر رائے دینے والے فیصلہ پڑھ کر رائے دیں۔ جسٹس عظمت سعید نے تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں ہمیں کچھ نظر نہیں آ رہا،کتنے آدمی ہیں وہ سات یا آٹھ آدمی ہی تو ہیں۔ جے آئی ٹی کے الزامات پر حسین نواز نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کراتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ تضادات کا مجموعہ ہے ایک طرف تصویرلیک ہونے کا اعتراف کیا گیا جبکہ دوسری طرف درخواست کو جے آئی ٹی کیخلاف مہم کا حصہ قرار دیا گیا ہے، جواب میں کہا گیا ہے کہ سی سی ٹی وی کیمروں کا کنٹرول بھی جے آئی ٹی کے پاس ہے اور کیمروں کا فوکس صرف پیش ہونیوالے شخص پر ہوتا ہے اور تصویر لیکج کی ذمہ دار جے آئی ٹی ہے، حسین نواز نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی درخواست میں توہین آمیز یا سخت زبان استعمال نہیں کی جبکہ جے آئی ٹی ممبران تصویر لیکج سے راہ فراراختیار نہیں کرسکتے کیونکہ سی سی ٹی کیمروں میں جے آئی ٹی کا کوئی ممبر نہیں دکھائی دے رہا، جواب میں کہا گیا ہے کہ قانون جے آئی ٹی کو ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں دیتا اور ریکارڈنگ کا ایس او پی جے آئی ٹی نے خود بنایا حالانکہ اس کے پاس ایسا کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ تحقیقات میں جے آئی ٹی کو درپیش رکاوٹوںکے بارے میں اپنا جواب عدالت میں جمع کرائیں۔ فواد چودھری نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے ایک متفرق درخواست دائر کی ہے جس میں جے آئی ٹی اور فاضل عدالت کو دھمکیوں کے حوالے سے کچھ دستاویزی ثبوت دیئے گئے ہیں۔ دوسری طرف وزارت قانون نے جے آئی ٹی کے الزامات کی تردید کر دی۔ ترجمان وزارت قانون نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی سے موصول نوٹیفکیشن فوری متعلقہ وزارتوں کو بھیجے گئے۔ وزارت خارجہ کو بھی بلا تاخیر جے آئی ٹی کا سرکلر بھیج دیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں ایف بی آر نے جے آئی ٹی کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے حوالے سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو اپنا تحریری جواب بھجوا دیا جس میں کہا گیا ہے ریکارڈ فراہمی میں تاخیر نہیں کی، جے آئی ٹی کے مراسلے آٹھ، پچیس، انتیس مئی اور 8 جون کو موصول ہوئے۔ جے آئی ٹی نے 8 مئی کو چھ افراد کی1985ء کے بعدکی انکم، ویلتھ ٹیکس ریٹرن مانگی جس پر دو افراد کا 1985ء سے اب تک کا ریکارڈ سات دن میں فراہم کر دیا جبکہ باقی چار افراد نے اس مدت کے بعد سے ٹیکس ریٹرن فائل کیں، ان کا ریکارڈ بعد کے سالوں سے فراہم کیا گیا۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے25مئی کو مزید دس افراد کا ریکارڈ مانگا تو ان دس افراد کا ریکارڈ پانچ دن کے اندر فراہم کر دیا گیا۔ ایف بی آر کے جواب میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے8جون کو مزید ایک شخص کا ریکارڈ مانگا اور 8 جون کو 1974ء سے بعد کا ٹیکس ریکارڈ دینے کی ہدایت کی گئی یہ ریکارڈ 12جون کو جے آئی ٹی تک پہنچا دیا گیا۔ ایف بی آر کے مطابق جے آئی ٹی نے ریکارڈ مختلف اوقات میں مانگا اس لئے ٹکڑوں میں فراہم کیا گیا تاہم کچھ ریکارڈ ایف بی آر میں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے پیش نہ کیا جا سکا۔