وہ دن دورنہیں
بات اگریہاں تک ہی موقوف ہوتی کہ پھولوں سے محروم کردیتے لیکن جب کانٹوں پرسے بھی حق چھین لیاگیاتوغیرتِ ایمانی کاتقاضہ یہی تھاکہ اس رزق سے منہ موڑلیاجائے جو پروازمیں کوتاہی پیداکررہا ہے۔ایک غیرمسلم اوروہ بھی ہندوجوکل تک میراماتحت تھااس کوفوری طورپرمجھ پرترقی دیکر اس کے ماتحت کام کرنے کاحکم صادرکردیاگیا۔گویامجھ پریہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ گویاتذلیل وتکذیب کا دوراب شروع ہواچاہتاہے اورمیرے احتجاج اوربیباکی نے جومجھے بچپن میں اسکول میں ملاتھا،عجب تماشہ کھڑاکردیا۔مجھے انتہائی معذرت اورافسوس کے ساتھ یہ تاثردیاگیاکہ ”اوپروالوں”کامنشا یہی ہے کہ کچھ ہفتوں تک اس سلسلے کوبرداشت کرناپڑے گا حالانکہ میں تو”بہت اوپروالے” ہی کی بندگی کاحق اداکررہاتھا۔ اپنے کام کی اغلاط اورالزامات کے بارے میں دریافت کیا،ان کے سامنے ماضی کے واقعات جن میں ٹھیکیداروں کے انعامات کوٹھکرانے کاسب کوعلم تھا، سالوں کی کمائی دنوں میں حقارت سے ٹھکرادینے سے سبھی آگاہ تھے لیکن انہوں نے شائدیہ فیصلہ کرلیاتھاکہ یہ میرے بچوں کومحض اس لئے محرومی وافلاس کاشکاربناناچاہتے ہیں کہ میں اس مملکت کی خدمت کوبھی عبادت سمجھتاہوں۔اسی لئے یہ خطہ میرے نزدیک ایک مسجد کی مانند مقدس ہے لیکن "اوپروالوں” نے کچھ نہ سنااورمجھے جبراً اسی عہدے پرکام کرنے کوکہاگیااورمیرے انکارپرمجھ کوالگ کرنے کی دھمکی سنادی گئی۔ اس سے پیشتر کہ ان کے چہروں پرباطل کی مسکراہٹ آتی میں نے اپنااستعفیٰ خودتحریر کرکے ان کے منہ پر دے مارااوراس میں صاف لکھ دیاکہ ”میرارزق اوپروالوں سے نہیں بلکہ بہت اوپرسے آتاہے اورکوئی اسے راستے میں کاٹنے کی ہمت نہیں رکھتا۔جس کی بندگی میں کرتاہوں وہی میرارازق ہے اورجوکوئی مجھے رزق کی دھونس دیکراپنی بندگی پرمجبورکرناچاہتاہے میں اس کی خدائی کونمرودکی خدائی سمجھ کرٹھکراتاہوں ۔”ان اللہ ھوالرزاق ذوالقوة المتین”۔ میرے اس استعفے کے بعد مجھے دوسری کئی کمپنیوں میں سے بلاوہ آیالیکن دل اب اس قدرپریشان ہوچکاتھاکہ ایک عشرہ سے زائد جس ملک میں گزارتھا وہاں کل کاسورج دیکھنے کی تمنابھی باقی نہیں رہی تھی۔پاکستان کے بارے میں جوحسین تانے بانے بنے ہوئے تھے وہ بھی سراب نظرآرہے تھے۔سوچاکہ اب مغرب کی طرف منہ کرکے خداکی بندگی کاجوعہددن میں کم ازکم پانچ مرتبہ کرتاہوں کیوں نہ دنیا کے مغرب میں جاکراس کااظہارکروں۔آپ میرے استعفیٰ پرمنہ پھلائے بیٹھے تھے ،آپ سے مشورہ کرنے کیلئے ابھی منہ کھولاہی تھا کہ گویا آپ پھٹ پڑے۔ لیکن جب اصولوں کی بات ہوئی تو آپ مات کھاگئے ۔ آپ نے اپنا تبادلہ بہ امرمجبوری اورمصلحت کے تحت قبول کرلیا لیکن مجھے آپ سے "ضدی "اورنجانے اورکیاکیاالقاب سننے کو ملے حالانکہ ارفع مقاصد کیلئے بہت کچھ قربان کرناپڑتاہے۔ قائد اعظم کے نام سے کون واقف نہیں جوہندوں اورانگریزوں کے مجموعی دباؤ اورلالچ کے مقابلے میں پہار کی طرح ڈٹے رہے،اپنامقصد کسی قیمت پربیچنے کوتیارنہ ہوئے ۔ مسلمان کوچھوڑیئے یہ توتاریخ کے اندربڑاجانبازکردارلے کرآیاہے ۔یہ توعلم دین شہید بن کر رسول اکرمۖ کے نام کی آبروپردیوانہ وار قربان ہوجاتاہے۔آپ کافروں کوہی لے لیں،بھگت سنگھ جوآزادی کی خاطر اپنی جان نچھاورکرگیا۔ہزاروں کیمونسٹوں کودیکھ لیں جوزارِ روس کی بدترین سزائیں بھگتے رہے۔چینی اشتراکیوں کودیکھ لیں جوخاقان چین کی بیس سال تک بدترین اذیتیں سہہ کربالآخر اسے پچھاڑ گئے۔مردِ مجاہدسیدعلی گیلانی کوہی دیکھ لیں کہ باوجودضعیف العمری اورساری عمرمصائب میں مبتلاہونے کے ان کے عزائم قابل رشک حدتک جواں ہیں کہ وہ اب تک اپنے ملک وقوم کی آزادی کیلئے ایک لمحہ غافل نہیں رہے،اورتواورسیدہ آسیہ اندرابی کامجاہدانہ کردارہی ایساقابل تقلیداورقابل رشک ہے کہ اپنی جان ومال کی پرواہ کئے بغیربرہمنوں کیلئے دردسربنی ہوئی ہے اور اب وادی میں توہرنوجوان بچہ برہان وانی بننے کاخواب اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھاہے۔ہرروزحافظ عاقب جیسے نوجوان اپنی جانوں کانذرانہ دیکراپنی استقامت اورکامیابی کی نویدسنائے سرخروہورہے ہیں ۔پچھلے٠٧ سالوں سے کشمیری کیسی لازوال قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں کہ دشمن ظلم کرنے کے باوجودبے بس ہوتاجارہا ہے۔انسان کوتواللہ تعالی نے بڑی ایٹمی قوت دی ہے۔وہ توجس چیز سے محبت کرتاہے اس کیلئے سب کچھ کرڈالتاہے ۔ فرہادبنتا ہے توجوئے شیرنکال لاتاہے،رانجھابنتاہے توتاریک جنگلوں میں بھینسوں کے گلے چراتاہے،ایک نازک اندام لڑکی کے روپ میں اپنے مقصد کی خاطر چناب کی تندوتیزلہروں سے لڑجاتا ہے،میں نے توابھی صرف مغرب کارخ کیاتھا۔سعی مسلسل اورپیہم کوشش کا راستہ اختیارکرکے اس فرنگی ملک میں جوکہ ڈھائی صدیاں حکمرانی کرکے اب تک غلامی کے وہ اثرات چھوڑ کرآیاہے جس سے ہم ابھی تک نکل نہیں پائے لیکن خداگواہ ہے کہ کشمیرجنت نظیرکے مصائب میرے دل ونگاہ سے کبھی ایک لمحے کیلئے بھی اوجھل نہیں ہوئے۔ بالکل انہی کی مانندتاجرکی صورت میں اس ملک میں داخل ہواہوں۔مجھے یادہے مجھے رخصت کرتے وقت بہت سے دوستوں کی موجودگی میں آپ اپنے جذبات پرقابونہ رکھ سکے تھے جبکہ میرے ذہنی وقلبی دکھ دردکونظرشناس بھانپ گئے تھے۔لیکن ایک انگارہ تھاجسے برف کی دبیزتہوں میں ڈھانپ کررکھ دیاگیاتھالیکن اس کی حدت پھربھی محسوس ہورہی تھی لیکن میں تواس وقت بھی پریشان نہیں تھاکیونکہ کرم شب کی قدروقیمت رات کی تاریکی سے ہی ہوتی ہے اورتاروں کے حسن کاجھومرظلمتِ شب کی سیاہ پیشانی پر ہی کھلتاہے۔ چاند کاکنگن رات کی دلہن کوہی میسرآتاہے اوربارش کے قطرے کیلئے تپتی ہوئی زمین کاپیاسا دامن ہی سمندرکے لبریزپیمانے سے زیادہ مستحق طالب اورشائق ہوتاہے۔اپنی کمیابی اور اجنبیت پرمیں کبھی بھی پریشان نہیں ہوا،ہرقیمتی شئے کمیاب اور نادرہوتی ہے اورپھر یہ حدیث توآپ نے کئی مرتبہ پڑھی اورسنی ہوگی کہ: ”ایک وقت مومن کاایمان بچانااپنی مٹھی میں انگارہ تھامنے کے مترادف ہوگا”۔ اس لئے میں سمجھتاہوں کہ عالم اسباب میں سانس کاایک تموج اورذرے کاایک حقیروجودبھی تخلیق اسباب اورترتیبِ نتائج میں اپناحصہ اداکرتاہے۔ جس طرح عمل بدکی ایک خراش آئینہ ہستی کودھندلاجاتی ہے اسی طرح کلمہ خیر کاایک بول بھی عالم کے اجتماعی خیر کے ذخیرے میں اضافہ کردیتا ہے اورلوحِ زمانہ میں ریکارڈ ہوکرکبھی نہ کبھی ضرورگونجتا اور میزانِ نتائج میں اپناوزن دکھاتاہے۔بس ذرابدی کاشکنجہ ڈھیلاپڑنے کی دیر ہے کہ خیر کی کھیتی لہلہااٹھے گی،نیکی کااگر ایک ذرہ بھی معاشرے کے اجتماعی ضمیر میں موجودہوگاتووقت آنے پرضرورگلستانِ رعنابن کرنمودارہوگا۔بس اک آرز و بدلنے کی دیرہے!میری شدیدخواہش ہے کہ پہلی مرتبہ قصرسفیدکے فرعون کے سامنے جوحق گوئی وبے باکی مظاہرہ کیاگیا ہے۔ اس پراستقامت سے قائم رہیں اورایک جست بڑھ کرپاکستان کواس منزل پرپہنچانے کاعملی اعلان کردیں کہ آج کے بعداس ارضِ وطن کے ماتھے پراللہ کے نام کی پلیٹ ایستادہ ہے اوریہاں اسی کی حاکمیت اورقانون کی بالادستی ہوگی۔