ایڈیٹرکاانتخاب

وزیراعظم نے کہا اُن کی زندگی کھلی کتاب ہے مگراسکے بعض صفحات غائب ہیں، سپریم کورٹ

اسلام آباد: پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ عوام سچ جاننا چاہتے ہیں لیکن دونوں فریق نہیں چاہتے کہ سچ سامنے آئے اس میں کبھی ایک رکاوٹ کھڑی کرتا ہے تو کبھی دوسرا جب کہ وزیراعظم نے کہا اُن کی زندگی کھلی کتاب ہے مگراس کے بعض صفحات غائب ہیں۔
سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ وزیراعظم پر ٹیکس چوری کا الزام عائد کیا گیا، الزام میں کہاگیا کہ بیٹے حسین نواز نے باپ کو رقم تحفے میں دی، موقف اختیار کیاگیا کہ تحائف دینے والے کا ٹیکس نمبر موجود نہیں حالانکہ حسین نواز کا ٹیکس نمبر موجود ہے اور عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے بھی عدالت میں تسلیم کیاکہ حسین نواز کا ٹیکس نمبر موجود ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ مریم نواز والد کے زیر کفالت ہیں۔ کہا گیا کہ وزیر اعظم اثاثے ظاہر نہ کرنے پر رکن پارلیمنٹ رہنے کے اہل نہیں رہے۔
وزیر اعظم کے وکیل نے ان کا قوم سے خطاب عدالت میں پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کا کسی آف شور کمپنی سے تعلق تھا اور نا ہے، نوازشریف کی برٹش ورجن آئی لینڈ میں کوئی کمپنی نہیں، وہ کسی بھی آف شور کمپنی کے ڈائریکٹر،شیئر ہولڈر یا بینیفشل بھی نہیں۔ درخواست گزاروں نے وزیر اعظم کی تقاریر میں تضاد کی بات کرکے ان کی نااہلی کی درخواست کی حالانکہ ان پٹیشنوں میں نوازشریف پر جھوٹ بولنے کا الزام ہی عائد نہیں کیا گیا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے خود پر عائد الزامات کی درست وضاحت نہیں کی۔ نواز شریف نے تقریر میں کہا کہ ان کے والد نے بیرون ملک اسٹیل مل لگائی، انہوں نے اپنے خطاب میں بچوں سے متعلق کاروبار شروع کرنے کا نہیں کہا۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ جدہ فیکٹری کا سرمایہ بچوں نے کاروبار کے لئے استعمال کیا۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ دبئی کی فیکٹری کا معاہدہ عدالت میں پیش کیا گیا، الزام لگایا گیا کہ فیکٹری خسارے میں فروخت کی گئی، اس کے علاوہ قطر میں سرمایہ کاری نہ ہونے کا الزام بھی لگایا گیا، ایک الزام ہے کہ 7 ملین ڈالرز پر ویلتھ ٹیکس نہیں دیا گیا جب کہ پی ٹی آئی کی جانب سے مانا گیا کہ دبئی فیکٹری 9 ملین ڈالر میں فروخت ہوئی۔
جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ آپ کی ساری کہانی بی سی سی آئی بینک کے قرض سے شروع ہوتی ہے، دبئی مل کا وجود تھا بھی یا نہیں، جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ نواز شریف دبئی فیکٹری کے کبھی ڈائریکٹر نہیں رہے، دبئی مل کا سرمایہ بینکوں کا تھا،عدالت کمیشن بنائے جو دبئی جا کر جائزہ لے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم نے خود دبئی فیکٹری کا اعتراف کیا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ تمام ریکارڈ موجود ہے، وزیراعظم کی تقریرپہلےسےتحریرشدہ تھی انہوں نےفی البدیع نہیں کی اعتراف کے بعد بار ثبوت آپ پر ہے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ گلف اسٹیل مل ہونے یا نہ ہونے پر وقت ضائع نہ کریں، ساری دنیا گلف اسٹیل مل کو تسلیم کرتی ہے تو ہم کیسے تسلیم نہ کریں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ منی ٹریل آپ کے سوا کوئی اور نہیں جانتا، نواز شریف کی وضاحت سے مقدمہ کلیئر نہیں ہوتا، وزیراعظم کے وکیل کو عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا۔ قطری خط لندن فلیٹس کو لنک کرتا ہے لیکن نواز شریف نے تقریر میں ذکر نہیں کیا، کیا نواز شریف کا بزنس اور رقم سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر تعلق نہیں تو پھر لندن فلیٹس کی منی ٹریل کیسے دی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button