واقعہ معراج اور سائنس
تحریر : مولانا محمد فیاض خان سواتی
واقعہ معراج کا کچھ حصہ قرآن کریم میں مذکور ہے جبکہ اسکی تفصیلات احادیث صحیحہ میں تقریباً 45 صحابہ کرامؓ سے تواتر کیساتھ منقول ہیں، یہ حضورؐ کے تقریباً تین ہزار معجزات میں سے ایک بڑا معجزہ ہے، جو راجح قول کے مطابق سن 11 نبوی میں 27 رجب کو پیش آیا، معجزہ کا معنٰی ہی یہ ہوتا ہے کہ جو عقل کو عاجز کر دے، لیکن جو لوگ ہر چیز کو عقل کے ترازو سے ہی تولنے کے عادی ہیں وہ اس کا بھی انکار کر دیتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جہان سے دوسرے جہان تک اس دنیاوی جسم کیساتھ اتنا لمبا سفر رات کے تھوڑے سے حصے میں ہو سکے، اسکے متعلق حضرت مولانا علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کی ایک عبارت ان کے ”ملفوظات“ میں نظر سے گزری جسے ان کے داماد دارالعلوم دیوبند کے فاضل حضرت مولانا سید احمد رضا بجنوریؒ نے مرتب فرمایا ہے جس نے واقعہ معراج کو سائنس کی زبان سے بھی ثابت کر دیا، احباب ملاحظہ فرمائیں، وہ فرماتے ہیں،
”جب تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیاں دنیا میں عملی شکل اختیار نہ کر لیں گی اس وقت تک قیامت نہ آئے گی، انبیاء کے معجزات کا عملی مشاہدہ کرادیا جائے گا۔
(ف) اس بات کو اب پچاس سال کے قریب ہو گئے، چنانچہ آہستہ آہستہ سب حقائق کا تجربہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور آج کل کے خلائی سفر کرنے والے سترہ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سیر کرتے ہیں، ابھی یہ بھی ابتدائی حیثیت ہے، مستقبل قریب میں خلائی مسافروں کا سفر نہایت تیز رفتار ہوگا، وہ بہت حیرت انگیز ہوگا، کیونکہ ستاوں کی درمیانی مسافت کو بہت تیزی سے طے کر لیں گے، جس کا تصور بھی ہمارے لئے مشکل ہے۔
گارڈن کوپر کا زمین کے اردگرد 90 منٹ میں 22 چکر لگانا ایسے نئے دور کا پیغام ہے جسے آئن سٹائن نے اپنے نظریئے اضافت کی بناء پر پہلے ہی صحیح مان لیا تھا، یہ خلائی سفر گارڈن کوپر نے 90 منٹ میں طے کر لیا، اور گارڈن کوپر کی عمر اس خلائی سفر میں کم ہو گئی۔
اب تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفرِ معراج اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر اٹھایا جانا اورقرب قیامت میں نازل ہونا ایک حقیقت ثابتہ بن چکا ہے، وان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون (اور تیرے رب کے ہاں ایک دن ایک ہزار سال جتنا ہے جن کو تم شمار کرتے ہو) کی تفسیر تجربہ میں آگئی، ایک فلاسفر نے لکھا ہے کہ
”خلائی کشتی کے ذریعے ایک سے دوسرے کہکشاں تک آنا جانا ممکن الوقوع ہے اور وہاں کے حساب سے پچپن سال اور زمین کے حساب سے تین لاکھ سال گزر چکے ہوں گے“ یہ اس نے بڑے تھکا دینے والے تجربے کے بعد حساب لگایا ہے۔ سعدیؒ نے کیا خوب کہا ہے،
زباں تا بود در دہاں جائے گیر
ثنائے محمد بود دل پذیر
حبیبِ خدا اشرف انبیاء
کہ عرشِ مجیدش بود متکا
سوار جہاںگیر یکراں براق
کہ بگزشت از قصر نیلی رواق
اللہ کریم ہمیں حضورؐ کے معجزات کو برحق تسلیم کرنے کی توفیق عنایت فرمائے، آمین۔