نواز کی جیت ۔ شریف کی ہار
کالم:- محمود شام
چوپالوں۔ تھڑوں۔ ڈرائنگ روموں۔ دفتروں۔ بیرکوں۔ مسجدوں۔ یونیورسٹیوں میں ایک دوسرے سے کہا جارہا ہے کہ میاں نواز شریف نے مزاحمتی رویّہ اختیار کرکے پہلا رائونڈ تو جیت لیا ہے۔
مگر یہی جیت تاریخ کے اوراق میں بہت خطرناک رہتی ہے۔ مخالف قوتوں کو موقع مل جاتا ہے اپنی نئی حکمت عملی مرتب کرنے کا۔ انہیں یہ احساس بھی ہوگیا ہے کہ نواز شریف وزیراعظم ہوتے ہوئے اتنے خطرناک نہیں تھے جتنے اب ہوگئے ہیں۔ پنجابی میں بہت سی واریں لکھی گئیں۔ اب میاں نواز شریف کی وار لکھی جارہی ہے۔ بیٹیوں والے بیٹیاں اور مائیں بہت خوش ہیں کہ دیکھو بیٹی ہی اس مشکل وقت میں باپ کا سہارا بنی ہے۔ پنجاب کے گھروں میں مریم سے محبتیں بڑھ گئی ہیں۔ خوش شکل تو وہ تھیں ہی اب خوش خطاب۔ خوش لباس۔ خوش خصال بھی کہلا رہی ہیں۔ یقیناََ یہ نواز شریف 1999 والا نواز شریف نہیں ہے جو جیل سے گھبرا کر ڈیل کرکے سب کو لاوارث چھوڑ کر سعودی عرب چلا گیا تھا۔ اکیسویں صدی کا نواز شریف تو جیل جانے پر تلا ہوا ہے۔ وہ ہر روز ایسے بیانات دے رہا ہے کہ جج صاحبان اتنے مشتعل ہوجائیں اور اسے جیل بھیجنے کا پروانہ جاری کر ہی دیں۔
تاریخ کہہ رہی ہے کہ نواز جیت گیا۔ شریف ہار گیا۔ کمال کی بات یہی ہے کہ خود نواز نے شریف کو ہرایا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا تو لودھراں کے پانی پت میں فتح پی ایم ایل (ن) کا مقدر نہ بنتی۔
طبقاتی تضاد پر یقین رکھنے والے چو این لائی کی مثال دیتے ہیں کہ اس نے اپنے طبقے سے بغاوت کی تو مقبول ہوا۔ بھٹو نے اپنے طبقے سے مختلف طرز اختیار کی تو لوگوں کے دِلوں میں گھر کرگیا۔ تو کیا نواز شریف بھی اپنے طبقے سے برعکس رویّے اپنا رہے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں نہیں ایسا نہیں ہے۔ بغاوت مکمل نہیں ہے۔ اسلام آباد میں ان کی حکومت ہے۔ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ان کے پاس ہے۔ کیا ان حکومتوں کے خزانوں۔ اختیارات ۔ گاڑیوں۔ پولیس۔ صوبائی خفیہ ایجنسیوں۔ ٹرانسپورٹ کے بغیر بھی وہ دبنگ کا کردار ادا کرسکتے تھے۔ کیا انہیں وہ مشکلات درپیش ہیں جو ایوب اور یحییٰ کے دور میں بھٹو کو تھیں۔ کیا انہیں ان مصائب کا سامنا ہے جو ایئر مارشل اصغر خان کو بھٹو کے دور میں تھا۔
میں دوسرے انداز سے سوچ رہا ہوں۔ پہلے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ زندہ ہیں تو دیکھ لیا کہ طاقت وروں کا احتساب کیسے ہوتا ہے۔ ہم نے کہاں دیکھا تھا کہ ایک بھاری مینڈیٹ والے اور ایک انتہائی مضبوط حکمران کو جج صاحبان کرسی سے اُتارنے کا فیصلہ دے دیں۔ وزیراعظم عدالت میں پیش ہورہے ہیں۔ وزیراعلیٰ حاضری دے رہے ہیں۔
یہ دور بالکل نیا ہے۔ گزشتہ سب ادوار سے مختلف۔ اسے محسوس کرنے۔ اس کا تجزیہ کرنے۔ اس کے مابعد اثرات کا اندازہ کرنے کے لیے بالکل نئی حسیات اور نئے ذہنی رجحانات درکار ہیں۔ ہم وہی پرانی سازشی کہانیوں۔ خفیہ طاقتوں اور روایتی اندازوں میں محصور ہیں۔ مقتدر ادارے بھی پرانی عینکوں کا استعمال کررہے ہیں۔ معلّق پارلیمنٹ کی داستانیں چل رہی ہیں۔ 1970 کے انتخابات میں یحییٰ خان نے بھی جنگی نقشہ بنایا تھا کہ سب پارٹیاں تھوڑی تھوڑی سیٹیں لے کر آئیں گی۔ وہ ان سے کھیلتے رہیں گے۔ عوام کے موڈ کا اندازہ نہیں لگایا گیا۔ اوپر سے یہ ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن جیسے ذہین لیڈروں کو پورے ایک ایک سال کی انتخابی مہم مل گئی۔ ساری نقشے بازی دھری رہ گئی۔
اب بھی میاں محمد نواز شریف کو کھلا میدان مل گیا ہے۔ مجمع بڑا ہوتا جارہا ہے۔ انہیں مزا آرہا ہے۔ نااہل ہونے کے بعد وہ ہر پابندی سے آزاد ہیں۔ اب ان کو اور کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جیل جانے سے ان کی ریٹنگ اور بڑھ جائے گی۔
دوسری طرف وہ عمران خان کو بھی بہت پیچھے دھکیل چکے ہیں۔ عمران خان کی حکمتِ عملی بے نتیجہ ہوچکی ہے۔ چار سال پہلے انہوں نے صرف ایک ہی ہدف رکھا تھا۔ نواز شریف کا استعفیٰ۔ نواز شریف سے وزارتِ عظمیٰ کی کرسی چھیننا۔ وہ ہدف پورا ہوچکا۔ اب ان کے پاس کوئی نعرہ نہیں ہے لوگ اب ان کی بات سننے کیوں آئیں۔ نواز شریف کی برطرفی کے بعد کی حکمتِ عملی انہوں نے مرتب نہیں کی تھی۔
کے پی میں وہ کوئی انقلاب لے آتے۔ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں اسے مثالی صوبہ بناتے۔
جہاں تک ان شخصیتوں کی دو بدو لڑائی تھی۔ فی الحال تو نواز شریف اس میں فاتح نظر آرہے ہیں ان سے وزارتِ عظمیٰ چھن گئی ہے۔ وہ مظلوم ہیں۔ عام لوگوں کو وہ یہ باور کروانے میں بظاہر کامیاب ہوگئے ہیں کہ ان کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔
اب اگر آپ غیر جانبدار ہو کر سوچیں۔ صرف پاکستان کے عوام کا مفاد سامنے رکھیں تو اس سارے گھمسان کے رن سے پاکستانیوں کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ مرکز میں مسلم لیگ (ن) ہی کی حکومت ہے۔ پہلے کے مقابلے میں کمزور۔ چوہدری نثار علی کے مقابلے میں احسن اقبال صاحب اس قدوقامت کے وزیرداخلہ نہیں ہیں۔ خرم دستگیر خواجہ آصف جیسے دبنگ وزیر دفاع نہیں ہیں۔ طلال چوہدری۔ دانیال عزیز اب اتنے جرأتمندانہ بیانات نہیں دیتے۔ وزارت نے ان کی بے باکی کم کردی ہے۔ شاہد خاقان عباسی ایک وقت میں کئی طاقتوں کو خوش کرنے کے مشکل تجربے سے گزر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کو اب بھی وزیراعظم کہہ کر اپنا قد خود گھٹاتے ہیں۔
میاں صاحب کے وزیراعظم ہوتے ہوئے جب عمران خان انہیں للکارتے تھے تو وہ بہت بہادر لگتے تھے۔ لوگ ایسے جری اور بے خوف لیڈر کو سننے آتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ایک متبادل لیڈر سامنے آرہا ہے۔ اب وہ میاں صاحب کو چیلنج دیتے ہیں تو وہ اتنے دبنگ نہیں لگتے۔
لوگوں میں بہت مایوسی ہے۔ میاں صاحب ججوں اور ان کے پیچھے کھڑی طاقت کو للکار کے مقبولیت تو حاصل کررہے ہیں مگر پاکستان کے دیرینہ مسائل کے حل کی کوئی اُمید نہیں دِلارہے ہیں۔ ماضی کے وزرائے اعظم کی مظلومیت کا رونا رو رہے ہیں۔ کمیشن قائم کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ میں کیوں ایسا نہیں سوچا۔ اب بھی ان کی حکومت ہے۔ وزیراعظم عباسی کو حکم دیں کہ یہ ’سچائی کمیشن‘ قائم کروا دیں۔ ماہرین معیشت کی مدد سے ایسے منصوبے تشکیل دیں جو آئندہ پندرہ بیس برسوں کے لیے ہوں۔ ان کی نگرانی مریم نواز کے سپرد کریں۔
کرپشن کو تو انہوں نے تقریروں کے ذریعے بہت چھوٹی بُرائی قرار دے دیا ہے۔ اب کرپشن عام لوگوں کا مسئلہ نہیں رہی ہے۔ لیکن کوئی ایسا احتسابی نظام تو قائم کرنا ہوگا کہ قومی خزانے کی لوٹ مار ختم ہوجائے۔ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں کو بااختیار بنایا جائے۔ ایمنسٹی اسکیم لائی جائے۔ لیکن اپنی ناجائز آمدنی کا سب اعتراف کریں۔ آئندہ توبہ کریں۔ سیاستدانوں کی طرف سے اگر ایسی پہل نہ ہوئی تو پھر وہی طویل مدتی عبوری حکومت کی تلوار لٹکے گی۔
کچھ ایسی کوشش ہونی چاہیے کہ نواز تو جیت گئے ہیں۔ شریف بھی جیت جائیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ