نوازشریف کے پارٹی صدر بننے پر قانونی ماہرین منقسم
(اسلام آباد 3 اکتوبر )
بشیر باجوہ بیورو چیف پاکستان نیوز وائس آف کینیڈا)
انتخابی اصلاحات بل کی منظوری کے باوجود نوازشریف کے پارٹی صدربننے میں قانونی پیچیدگیاں حائل رہیں گی ، حامد خان ایڈوکیٹ فرد واحد کیلئے قانون کی تبدیلی کو سپریم کو رٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، جسٹس (ر) وجیہہ الدین چونکہ اس قانون میں تبدیلی سے کسی شخص کے بنیادی انسانی حقوق متاثر نہیں ہوتے لہذا سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا،ایس ایم ظفر قومی اسمبلی سے سادہ اکثریت سے منظور ہونے کے بعد بل صدرمملکت کے پاس جائے گا، صدر مملکت کے دستخط کے بعد انتخابات بل 2017ء قانون بن جائے گا،زیر قانون زاہد حامد
قومی اسمبلی سے انتخابی اصلاحات کا بل پاس ہونے کے باوجو د نوازشریف کے پارٹی صدربننے میں قانونی پیچیدگیاں حائل رہیں گی، قانونی ماہرین کی رائے۔ سابق وزیر اعظم نوازشریف کے پارٹی صدر بننے پر قانونی ماہرین منقسم ہوگئے ہیں ، ممتاز ماہر قانون ایڈوکیٹ حامد خان کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی سے انتخابی اصلاحات بل 2017ء کی منظور ی کے باوجود بھی نوازشریف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر نہیں بن سکیں گے، فرد واحد کیلئے قانون کی تبدیلی کو سپریم کو رٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے ، جسٹس (ر) وجیہہ الدین ۔
جبکہ سینیئر قانون دان ایس ایم ظفر کے خیال میں چونکہ اس قانون میں تبدیلی سے کسی شخص کے بنیادی انسانی حقوق متاثر نہیں ہوتے لہذا سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وزیر قانون زاہد حامد نے انتخابات بل 2017ء سینیٹ سے ترامیم کے ساتھ منظور ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کیا جسے اکثریتی رائے سے منظور کرلیا گیا ۔ قومی اسمبلی سے سادہ اکثریت سے منظور ہونے کے بعد بل صدرمملکت کے پاس جائے گا ۔
صدر مملکت کے دستخط کے بعد انتخابات بل 2017ء قانون بن جائے گا۔ حکومتی پارٹی کا خیال ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف کے دوبارہ پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار ہوجائیگی۔ مگر اس سلسلے میں قانونی ماہرین کی رائے مختلف نظر آتی ہے ۔ ممتاز قانون دان حامد خان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ سے نااہل شخص کا پارٹی کا صدر بننا آئین کی رو سے منافی ہے۔
انہوںنے کہا کہ یہ قانون کی غلط تشریح ہے اگر کوئی نااہل شخص پارٹی کا صدر بنتا ہے تو سپریم کورٹ اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے بتایا کہ یہ واحدپیشہ ہے کہ جس کے لئے کوئی اہلیت درکار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کے بل کو چیئرمین سینیٹ کو مسترد کرنا چاہیے تھا مگر چونکہ پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا مک مکا ہے لہذا وہ ایوان میں ایکدوسرے کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
ریٹائرڈ جسٹس نے کہا کہ سینیٹ میں ووٹنگ کے دوران پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے سینیٹرز کی عدم موجودگی بھی معنی خیز ہے۔ انہوںنے کہا کہ اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ البتہ سینئرقانون دان ایس ایم ظفر کے مطابق قانون میں ترمیم سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ انہوںنے کہا کہ چونکہ اس قانون میں تبدیلی کے بعد کسی سطح پر بنیادی انسانی حقوق متاثر نہیں ہوتے لہذا سپریم کورٹ اس پر رولنگ نہیں دے گی۔ البتہ بنیادی انسانی حقوق کے منافی قوانین بنانے کی صورت میں اعلی عدلیہ حرکت میں آتی ہے۔ سینئر قانون دان کا کہنا تھا کہ ایسے قوانین خود بخود اپنی وقعت کھوبیٹھتے ہیں۔