نوازشریف کی سیاست کا وہ دور شروع ہوا ہے جس سے ہمارے مخالفین کو ڈرنا چاہیے
اسلام آباد: وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہےکہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے نوازشریف کی سیاست کا وہ دور شروع ہوا ہے جس سے ہمارے مخالفین کو ڈرنا چاہیے جب کہ یہ فیصلہ وہی مذاق ہے جو ملک کے 17 وزرائے اعظم کے ساتھ ہوا۔
اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہا کہ یہ وہی فیصلہ ہے جس سے شہید بھٹو کو پھانسی چڑھایا گیا اور بےنظیر بھٹو کو شہید کیا گیا، آج پھر پاکستان کے تیسری مرتبہ منتخب وزیراعظم کو تاحیات نااہل کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جس فیصلے میں نوازشریف کو ایک اقامےک پر نااہل کیا گیا اس کا ٹرائل ہورہا ہے، منتخب وزیراعظم کو نااہل کیا جاتا ہے اور فیصلے پر ٹرائل بعد میں آتے ہیں، جو ٹرائل مکمل نہیں ہوا اس پر منتخب وزیراعظم کو تاحیات نااہل کردیا گیا، یہ وہی مذاق ہے جو پاکستان میں 17 وزیراعظم کے ساتھ ہوتا چلا آیا ہے۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ نوازشریف کو پہلے نااہل کیا گیا، پارٹی کی صدارت سے ہٹایا گیا اور سینیٹ الیکشن میں مقبول ترین جماعت کو حصہ لینے سے روکا گیا، جس وزیراعظم کو پاکستان کے عوام نے منتخب کیا ہو اس کی نااہلی کا فیصلہ عوام کرے گی، اس طرح کی نااہلی کا فیصلہ طیارہ کیس میں بھی آیا لیکن جس نےملک کا آئین توڑا اس کے لیے کسی قسم کا کوئی سوموٹو ایکشن نہیں۔
وزیر مملکت نے کہا کہ نوازشریف عوام کےدلوں میں بستے ہیں، اس نااہلی کو بھی عوام قبول نہیں کرے گی، سب کو معلوم ہے (ن) لیگ کی جو مقبولیت عوام میں ہے اس کو نوازشریف کی نااہلی سے جوڑا جارہا ہے، یہ لوگ معصوم اور بزدل لوگ ہیں، ایسے فیصلوں سے سیاست کا ایک اور دور شروع ہوتا ہے، آج نواز شریف کی سیاست کا وہ دور شروع ہوا جس سے ہمارے مخالفین کو ڈرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام اس فیصلوں کے متحمل نہیں ہوسکتے، تاریخ گواہ ہے جس وزیراعظم کےبارے میں ایسے فیصلے آئے جب کچھ نہیں ملتا تو نظریہ ضرورت کا سہارا لیا جاتا ہے، (ن) لیگ کے ووٹر دل چھوٹا نہ کریں، جس عزم کو ووٹر نے اٹھایا اس فیصلے کے بعد وہ اور بھی مضبوط ہوگا، ملک میں ووٹ کی پامالی اب نہیں ہوسکتی، ووٹر مضبوط ہیں، اصل کام اب شروع ہوا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ اور نوازشریف نے ہمیشہ عدلیہ کی عزت، وقار اور ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کی بات کی، یہ فیصلہ اور اس پر جو رد عمل ہے وہ پاکستان کی عوام اور نوازشریف کا حق ہے۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھاکہ جو بھی منتخب وزیراعظم کے ساتھ ہوتا آیا اس سے آج تک پاکستان جمہوریت کا مقدمہ لڑرہا ہے، اس کو نواز شریف آخری مراحل تک پہنچائیں گے۔
وزیر مملکت نے مزید کہا کہ ملک کے آئینی ادارے سب کے لیے قابل عزت ہیں، سب کو آئینی اداروں کی عزت کرنی چاہیے، سپریم کورٹ کی عزت بھی ہم سب پر لازم ہے، کسی ادارے کے بارے میں کوئی ایسی چیز بیان نہیں کی جو کسی کی ہتک عزت ہو۔
آئین کا آرٹیکل 62 مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) اراکین کی اہلیت سے متعلق ہے جس کی مختلف شقیں ہیں۔
آرٹیکل 62 کہتا ہے کہ کسی بھی شخص کے لئے پارلیمنٹ کا رکن ہونے کے لئے ان شقوں پر پورا اترنا ضروری ہے، جو یہ ہیں:
(a) کوئی ایسا شخص پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اہل نہیں جو پاکستان کا شہری نہ ہو ۔
(b) آرٹیکل 62 بی کہتا ہے کہ رکن قومی اسمبلی کی عمر 25 سال ہونا ضروری ہے اور بطور ووٹر اس کے نام کا اندراج کسی بھی انتخابی فہرست میں موجود ہو جو پاکستان کے کسی حصے میں جنرل سیٹ یا غیر مسلم سیٹ کے لئے ہو۔
(c) رکن سینیٹ کی صورت میں 30 سال عمر ہونا ضروری ہے اور ایسے شخص کا صوبے کے کسی بھی حصے میں اس کا نام بطور ووٹر درج ہو ، فاٹا کے ارکان بھی اس میں آتے ہیں۔
(d) آرٹیکل 62 ڈی کہتا ہے کہ ایسا شخص اچھے کردار کا حامل ہو اور اسلامی احکامات سے انحراف کے لئے مشہور نہ ہو۔
(e) ایسا شخص اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور اسلام کے منشور کردہ فرائض کا پابند ہو، نیز کبیرہ گناہ سے اجتناب کرتا ہو۔
(f) آرٹیکل 62 ون ایف کہتا ہے کہ پارلیمنٹ کا رکن بننے کا خواہش مند شخص سمجھدار ہو، پارسا ہو، ایماندار ہو اور کسی عدالت کا فیصلہ اس کے خلاف نہ ہو۔
(d) ایسے شخص نے پاکستان بننے کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو اور نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔
آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی پر بحث
آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت پارلیمنٹ کے رکن کی نااہلی سے متعلق اس وقت بحث شروع ہوئی جب سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا۔
نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے بعد سیاسی اور قانونی حلقوں میں سوالات اٹھنا شروع ہوئے کہ ان کی نااہلی کی مدت کتنی ہے۔
اس شق کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ میں 13 مختلف درخواستوں پر سماعت کی گئی۔
سپریم کورٹ میں یہ درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ اراکینِ اسمبلی بھی شامل تھے جنہیں جعلی تعلیمی اسناد جمع کرانے کی بنیاد پر نااہل کیا گیا۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے آج (13 اپریل) کو رکن پارلیمنٹ کی نااہلیت سے متعلق اپنے متفقہ فیصلے میں قرار دیا کہ جو شخص صادق اور امین نہ ہو وہ تاحیات نااہل ہوگا