ناصر الملک کی قیادت میں نگراں حکومت آگے کھائی پیچھے کنواں کی صورتحال میں پھنس گئی
اسلام آباد :- عالمی بینک کے ادارے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹس (سرمایہ کاری کے تنازعات نمٹانے کے بین الاقوامی ادارے) کی جانب سے ترک کمپنی کارکے کارادینز الیکٹرک یورینٹم اے ایس (Karkey Karadeniz Elektrilk Urentim AS) کی شکایت پر اسلام آباد کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کی خلاف ورزی پر ہرجانے اور یومیہ جرمانے کی مد میں عائد کردہ 950؍ ملین سے ایک ارب ڈالرز تک کی ادائیگی پاکستان نہیں کر پائے گا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جسٹس (ر) ناصر الملک کی قیادت میں نگراں حکومت واقعتاً آگے کھائی پیچھے کنواں کی صورتحال میں پھنس گئی ہے کیونکہ اگر حکومت نے 800؍ ملین ڈالرز اور ساتھ ہی یومیہ جرمانے (جس سے کل ملا کر رقم ایک ارب ڈالرز تک جا پہنچے گی) کی ادائیگی کا فیصلہ کیا تو یہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہوگی کیونکہ عدالت عظمیٰ رینٹل پاور پروجیکٹ کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ اور اگر یہ ادائیگی نہ کی گئی تو رواں ہفتے میں ملک کو دیوالیہ قرار دیا جائے گا۔ اس طرح ترک کمپنی کارکے دنیا کے کسی بھی ایسے ملک میں پاکستان کیخلاف اثاثوں کی ضبطی کا مقدمہ دائر کرنے کی اہل ہوجائے گی جہاں پاکستان کے اثاثے موجود ہیں۔ دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے اعلیٰ حکومتی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہم واقعی کشمکش میں مبتلا ہوگئے ہیں اور سمجھ نہیں آ رہی کہ موجودہ صورتحال میں کیا کریں کیونکہ ہم عالمی ادارے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹس (آئی سی ایس آئی ڈی) میں اپنا مقدمہ ہار چکے ہیں اور اب اسی ہفتے ڈیفالٹ قرار دیے جانے کا امکان ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ قانونی معاونت فراہم کرنے والی لندن کی کمپنی ایلن اینڈ اوواری، جسے ترک کمپنی کے اِس کیس کے علاوہ ریکو ڈک کا کیس بھی دیا گیا تھا، کو قومی خزانے سے چار ارب روپے کی ادائیگی کی جا چکی ہے لیکن اسی عالمی ادارے میں دائر کردہ دونوں کیسز میں پاکستان کو شکست ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس قانونی کمپنی کو فیس کی مد میں گھنٹوں کے حساب سے ادائیگی کی گئی اسلئے تحقیقات ہونا چاہئے کہ آیا اتنی بھاری رقم کی ادائیگی کیلئے احتیاط سے کام لیا گیایا نہیں۔ ترک کمپنی کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کو ایک واٹ بجلی بھی نہیں ملی اور ریکو ڈک کے معاملے میں دیکھیں تو بلوچستان کو بھی کوئی فائدہ نہیں ملا، لیکن اس کے باوجود پاکستان کو ان کمپنیوں کو ہرجانے کی مد میں اربوں ڈالرز دینا پڑ سکتے ہیں۔ ملک کے غریب عوام کی کمائی کو پہنچائے گئے اس زبردست نقصان کا ذمہ دار کون ہوگا؟ اس معاملے کی نیب کے ذریعے تفصیلی تحقیقات ہونا چاہئیں اور اسے داخل دفتر نہیں کرنا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے یہ معاملہ نگراں حکومت کے گوش گزار نہیں کیا تھا اسلئے اچانک ہی یہ معاملہ نگراں حکومت کیلئے سانحے جیسی صورتحال کے طور پر سامنے آیا ہے۔ گزشتہ ہفتے نگراں وزیراعظم کو اس معاملے پر بریفنگ دی گئی کیونکہ ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر پہلے ہی شکستہ حالت میں ہیں اور پاکستان ترک کمپنی کو تقریباً ایک ارب ڈالرز کی یہ ادائیگی کرنے کی حالت میں نہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے یہ بات بھی نمایاں ہوتی ہے کہ ملک کے سینئر ججوں کو عالمی قوانین کا علم ہی نہیں کہ کبھی کبھار ناقابل قبول صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے جیسا ترک کمپنی اور ریکو ڈک کے کیس میں ہوا ہے جس میں اب ملک کو عدلیہ کے فیصلوں کی وجہ سے جرمانوں کی مد میں بھاری ادائیگیاں کرنا پڑ سکتی ہیں۔ رینٹل پاور پروجیکٹس کے کیس کے 2012ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ترک کمپنی کارکے نے پاکستان کیخلاف آئی سی ایس آئی ڈی میں فروری 2013ء میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ کارکے کو پاکستان میں بجلی کے بحران سے نمٹنے کیلئے 560؍ ملین ڈالرز کا کنٹریکٹ دیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر یہ کنٹریکٹ پانچ سال کا تھا۔ تاہم، سابق وزراء مخدوم فیصل صالح حیات اور خواجہ آصف نے پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کے اس معاہدے کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ 2012-13ء میں اس وقت کے نیب پراسیکوٹر نے کارکے کے ساتھ معاملہ طے کرنے کی کوشش کی تھی لیکن چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ان کی کوششوں کو روک دیا اور ترک کمپنی کے ساتھ معاملہ نمٹانے کی صورت میں سخت کارروائی کا انتباہ جاری کیا تھا۔ ترک کمپنی کارکے کا کیس واحد کیس نہیں جس میں پاکستان کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔ ریکو ڈک کیس میں بھی آئی سی ایس آئی ڈی نے پاکستان کے الزامات ٹیتھیان کاپر کمپنی پرائیوٹ لمیٹڈ (ٹی سی سی) پر کرپشن کے الزامات مسترد کر دیے۔ بعد میں ٹی سی سی نے 12؍ ارب ڈالرز ہرجانے کا دعویٰ کیا جسے پاکستان نے مسترد کردیا۔ اب ضرورت اس بات کے تعین کی ہے کہ قومی خزانے کو نقصان کس نے پہنچایا؟