سندھ پولیس میں میگا کرپشن کیس میں سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کے شریک ملزم پولیس افسران کے خلاف تحقیقاتی کمیٹی کی سفارش پر سخت محکمانہ کارروائی کی تیاری کی جارہی ہے، اس سلسلے میں کمیٹی نے سفارشات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق غلام حیدر جمالی کو سندھ پولیس میں میگا کرپشن پر عہدے سے ہٹا کر اے ڈی خواجہ کو نیا انسپکٹر جنرل سندھ مقررکیا گیا تھا، جس کے بعد سے میگا کرپشن کیس میں وہ ’تیزی‘ نہیں رہی جو اس تبادلے سے پہلے دیکھی جارہی تھی، یہاں تک کہ غلام حیدر جمالی پر جن پولیس افسران کے ذریعے کرپشن کرنے کا الزام تھا، ایسے لگ بھگ تمام ہی افسران اس وقت سے سندھ پولیس میں اہم عہدوں پر تعینات رہے ہیں اور ان کے خلاف’بااختیار پولیس قیادت‘ کی جانب سے تاحال باعث عبرت محکمانہ کارروائی نہیں کی گئی۔
ذرائع کے مطابق سندھ پولیس میں ایک ارب 40 کروڑ روپے کی کرپشن کی تحقیقات کے دوران سندھ پولیس کے آئی جی سے لے کر کلرک تک کے عہدے کے 70 افسران اور اہلکاروں کو شریک جرم پایا گیا تھا، پہلے مرحلے میں آئی جی سے لے کر ڈی ایس پی تک کے عہدے کے 45 اعلیٰ افسران کو نیب نے شامل تفتیش کیا، مبینہ طور پر تمام پولیس افسران پر الزامات ثابت ہوئے۔
ان میں کئی پولیس افسران نے تو نیب کے پاس اقبال جرم کرتے ہوئے پلی بارگیننگ کے تحت کرپشن سے حاصل کی گئی رقم واپس بھی جمع کرا دی تھیں، اے ایس آئی، کلرک، موٹر ٹرانسپورٹ آفیسر اور اسٹور انچارجز کے عہدے کے اہلکار بھی ملوث پائے گئے تھے۔
اس سلسلے میں سندھ کے اعلیٰ پولیس افسران موجودہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی، ڈی آئی جی سلطان علی خواجہ اور نعیم شیخ پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، کمیٹی نے ان الزامات کی تصدیق کی تھی اور تفصیلی رپورٹ اعلیٰ عدلیہ کے پاس جمع کرادی تھی۔
ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے تازہ ترین رپورٹ بھی سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی ہےجس کے ساتھ ایک فہرست بھی شامل کی گئی ہے جس میں میگا کرپشن میں ملوث پولیس افسران کی حالیہ عہدوں پر تعیناتی کی تفصیلات شامل ہیں۔
سابقہ آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کے ساتھ الزامات کا سامنے کرنے والے ملزمان میں اے آئی جی فنانس فدا حسین شاہ نے تحقیقات کے دوران انکشاف کیا تھا کہ کہ انہوں نے تمام رقوم سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کے حکم پر جاری کیں۔
اس سلسلے میں سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کا مؤقف تھا کہ انہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کیا بلکہ جو کچھ بھی کیا وہ ان کا صوابدیدی اختیار تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے قانون کے مطابق فنڈز ضلع کے ایس ایس پیز کو جاری کئے تھے، انہوں نے ملبہ اپنے ماتحت افسران پر ڈالا تھا کہ گڑبڑ اگر انہوں نے کی تھی تو انہیں پکڑا جائے۔
اب اس کیس میں غلام حیدر جمالی کو تو آئی جی سندھ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا مگر اس میگا کرپشن کے ’مہروں‘ کے خلاف کوئی سخت کاروائی نہیں کی گئی تھی، یہاں تک کہ ان کے خلاف کوئی سخت محکمانہ ایکشن نہیں لیا گیا اور اس فہرست کے بیشتر پولیس افسران سندھ پولیس کی موجودہ قیادت کی آنکھوں کے تارے بنے ہوئے ہیں اور بیشتر افسران دو سال سے مختلف اہم عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں ایک رپورٹ تیار کرلی گئی ہے اور ایسے تمام کرداروں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ وہ افسران ہیں جو پولیس اہلکاروں کو نقد انعامات کی تقسیم میں گھپلے، بجلی کے بلوں میں خرد برد، فورس کیلئے گاڑیوں کی خریداری اور پولیس ملازمین کے کھانے کے بلوں میں جعلسازی، تفتیشی فنڈ، فرنیچر اور مشینری کی خریداری، ٹرانسپورٹ، ایندھن، ادویات کی خریداری، عمارت کی مرمت اسٹیشنری، چیزوں کی ری پیئرنگ، عملے کیلئے وردیوں کی خریداری میں کرپشن، ٹرانسپورٹ اور دیگر معاملات میں لوٹ گھسوٹ شامل تھے۔
اس کرپشن اسکینڈل میں سابق اے آئی جی فنانس فدا حسین شاہ، فیصل بشیر میمن، اے آئی جی لاجسٹک تنویر احمد طاہر، اس وقت کے ڈی آئی جی ویسٹ فیروز شاہ، عارف حنیف، امین الرحمن، ثاقب اسماعیل، نوید خواجہ، محمد فاروق، پیر محمد شاہ، تنویر احمد طاہر، کیپٹن حیدر رضا، صغیر فاطمہ، الطاف سرور ملک، کرم اللہ، غلام شبیر ملک، برکت حسین کھوسو، سیف اللہ، علی اصغر کلہوڑ، کامران راشد، قمر احمد اور منظور کھٹیان شامل تھے۔