رنگ برنگ

’میرے ماں باپ نے میرا ریپ کرنے والے شخص سے رشوت لی اور مجھے۔۔۔‘ نوجوان لڑکی نے پولیس کو ایسی بات کہہ دی جو کبھی پولیس والوں نے بھی نہ سنی تھی

نئی دلی(نیوز ڈیسک)جنسی ظلم کا نشانہ بننے والی خواتین کو معاشرے کی ہمدردی اور مشفقانہ رویے کی بے حد ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ بدقسمت کیا کرے جس کے اپنے والدین ہی رقم کے لالچ میں اسے چھوڑ کر ملزموں کے ساتھ مل جائیں۔ یہ ناقابل یقین شرمناک واقعہ بھارت میں پیش آیا ہے جہاں ایک جوڑے نے لاکھوں روپے کے لالچ میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی اپنی سگی بیٹی کو کیس واپس لینے پر مجبور کرنا شروع کر دیا۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق دارلحکومت سے تعلق رکھنے والی لڑکی کو گزشتہ سال دو اوباش افراد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ دونوں کو پولیس نے گرفتار کر لیا اور عدالت میں ان کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے۔ چند دن قبل ملزمان میں سے ایک ضمانت پر رہا ہوا اور بھاری رقم کی پیشکش لے کر متاثرہ لڑکی کے والدین کے پاس پہنچ گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر لڑکی اپنا مقدمہ واپس لے لے تو وہ 20لاکھ روپے دینے کو تیار ہیں۔ لڑکی کے والدین نے کچھ پس و پیش کے بعد رضامندی ظاہر کر دی اور ملزم کہا کہ وہ پانچ لاکھ بطور ایڈوانس لے کر آئے۔ اتفاق سے لڑکی یہ ساری گفتگو سن رہی تھی۔ جب ملزم رخصت ہوا تو اس نے اپنے والدین سے سوال کیا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی عصمت دری کرنے والے کے ساتھ کیسے سودا کر لیا۔ اس پر والدین نے اسے سمجھانا بجھانا شروع کر دیاکہ وہ مقدمہ واپس لے لے۔ جب لڑکی نے مقدمہ واپس لینے سے صاف انکار کر دیا تو والدین نے مار پیٹ بھی کی تا کہ اسے مقدمے کی واپسی پر مجبور کر سکیں۔ اسی دوران ملزم پانچ لاکھ روپے کی رقم بطور ایڈوانس لے کر آیا اور لڑکی کے والد کو دے کر رخصت ہو گیا۔ یہ رقم لڑکی کی والدہ نے اپنے تکیے کے نیچے چھپا کر رکھ دی۔
اگلی صبح جب میاں بیوی عدالت کے لئے روانہ ہوئے تو لڑکی نے رقم والا لفافہ اٹھایا اور اسے لے کر سیدھی تھانے جا پہنچی۔ اس نے سارا ماجرا پولیس کے سامنے بیان کیا اور درخواست کی کہ اس کی مدد کی جائے ۔ پولیس نے فوری کاروائی کرتے ہوئے لڑکی کی والدہ کو گرفتار کر لیا جبکہ اس کا والد فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس بدبخت کی تلاش جاری ہے۔دونوں کے خلاف لڑکی پر تشدد، قانونی حق سے محروم رکھنے اور قانونی کاروائی کی راہ میں رکاوٹ بننے جیسے الزامات کے تحت مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button