میاں شہباز شریف کا صوبہ اور ٹماٹر!
(کالم :-اقبال گیلانی )
حالیہ دنوں بہت سی اشیاءگرانی کے حجم میں آ گئیں اور ایسی اشیاءکی قیمتیں بھی گراں کر دی گئیں جنہیں گراں کرنا توہین گرانی تھا۔ سبز دھنیا‘ مرچ‘ پیاز‘ آلو اور ٹماٹر کمال تر ہو گئے ہیں کہ ان کی دستیابی عام فراد کیلئے مسئلہ بن گئی ہے۔ عام آدمی کے خانگی امور پہلے ہی دقیق تھے مگر سبزی کی انتہائی گرانی سے گھر کا مجموعی ماحول رنجورہو گیا۔ یہاں قیمتیں بڑھتی ہیں تو بڑھتے چلے جاتی ہیں اور روکنے والوں کو ادراک نہیں ہوتا کہ تدارک کے کیا کیا مضمرات ہیں۔ ملاوٹ سے لے کر چور بازاری تک لغتیں عمومی سی ہو گئی ہیں اور زائد نرخوں کے رواجات بھی عیاں ہیں۔ یہاں سماجی قدریں بھی دگرگوں ہیں اور معاشی رویوں نے بہت سوں کو بے حس کر دیا ہے۔ دیکھا جائے تو اطفالی زندگی بھی ستم رسیدہ ہے کہ اطفال کو وہ دودھ میسر نہیں کہ جس سے پھول کھلتے اور سنورتے ہیں۔ آمیزش والا زہریلا دودھ پینے سے بچوں کی صحت محال ہے اور ان کے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے راستے مسدود ہیں۔ بچے بیمار ہوں تو پورا گھرانہ رنجیدہ ہوتا ہے اور دوائی سے لے کر طبیب کی فیس تک سفیدپوشوں کے مسائل ہی مسائل ہیں۔ یہاں امیر بھی ہیں‘ غریب بھی ہیں‘ گوشت کھانے والے گوشت کھا رہے ہیں اور سبزی کھانے والے سبزی کی ہنڈیا چڑھائے ہوئے ہیں مگر یک لخت سبزیوں کی قیمت میں ہیراپھیری نے غم و غصہ کی فضا پیدا کر دی ہے۔ غرباءپہلے پھلوں کی قیمتوں سے عاجز تھے اور کسی قسم کا پھل خریدنے سے قاصر تھے اور اب سبزی کی ہوشربا گرانی نے انہیں تنگدست کئے جانے کی خبر دے دی ہے۔
پنجاب کام کرنے والے وزیراعلیٰ کا صوبہ ہو اور غرباءبھنڈی توری خریدنے سے محروم ہوں تو یہ واقعی ہی عجب کہانی ہے اور اس کہانی کے سبھی کردار بھیانک نہیں تو ولن ایسے ضرور لگتے ہیں۔ اگر قیمتوں کے نجی تعین کو معاشی طور پر دیکھا جائے تو لوٹ مار کا بازار قدرے زیادہ گرم ہے اور دکاندار بے خوفی سے صارفین کو لوٹ رہے ہیں‘ جبکہ قیمتوں کی پڑتال کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ گرانی کی نمو اور اس کی حقیقت کیا ہے اور اس بارے تدارک کے کیا عوامل ہیں۔ سیاستدان بھی عجب ہیں کہ جو اہلیت و نااہلیت کا رونا تو خوب پیٹ رہے ہیں مگر انہیں عوام کے غموں کا ذرا بھر بھی ادرک نہیں کہ وہ ہاتھ میں خالی روٹی لے کر سالن نہ ملنے کی سنگینی سے دوچار ہونے لگے ہیں۔ دال ہو یا سبزی گھر کا سالن قطعی بہتر ہوتا ہے اور غریب جانتا ہے کہ دال کے بعد اب سبزی کی انتہائی گرانی اسے بے نوا کرنے لگی ہے۔ یہاں پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹ بھی ہیں مگر ڈر‘ خوف کسی کو نہیں کہ ظالمانہ منافع خوری حرام ہے۔ پرائس کنٹرول والے جب سے ساکت اور مخفی ہوئے ہیں تب سے نرخ نامے بھی بے قاعدہ ہوگئے ہیں اور نرخوں کا انضباط انگشت نمائی سے عبارت ہے۔ بے ترتیب اور بے قاعدہ من مانی قیمتوں سے سبزی سے زیادہ سبزی قدمی کا ماحول پیدا ہو گیا ہے اور عوام اسی سبزقدمی کے گھیرے میں ہیں۔ یہاں سیاست بھی عوام کیلئے چنداں ہے کہ عوام میں سے ہر تیسرا فرد غربت کے باعث سبزی قدمی کا شکار ہے اور اس کی کہیں شنوائی بھی نہیں ہوتی کہ کوئی اس کا طرفدار ہو۔ ترکاری کے گراں ہونے پر دیوان اعلیٰ کو کوئی غم نہیں کہ زمانہ فاسٹ فوڈ سے آگے چلا گیا ہے اور دیوان اعلیٰ کے دیوان میں ترکاری کی اہمیت ہی نہیں کہ ترکاریوں کی اقسام و انواع کی پروا بے معنی ہے اور پھر ترکاریاں عوام کیلئے ہی ہیں اور عوام سے متعلق اشیاءکو مہنگی ہی ہونا چاہئے۔یہ گرانی کیوں ہے اور اس کے محرکات کیا ہیں‘ اس بارے سچ یہ ہے کہ سستے پن کی منصوبہ بندی ہی نہیں کی گئی۔ ہر کسی نے گرانی بڑھانے اور نرخ تجاوز کرنے کے عوامل کو مضبوط کیا اور عوام کو غربت دے کر کمزور کیا۔ آج ہر خطے میں لاکھوں مجبور اور بے بس افراد مشکلات کا شکار ہیں۔ چھوٹے اور بڑے شہروں میں مہنگائی کااپنا اپنا انداز ہے۔
لاہور میں مہنگائی قدرے زیادہ ہے اور لاہور میں جاتی امرا بھی ہے اور عمرہ اداکرنے والے ایسے معزز افراد بھی ہیں جو زیادہ حاکمیت والے ہیں اور ماتھے پر محراب بھی سجائے ہوئے ہیں اور یہی لوگ سبزبخت ہیں اور انہیں سبزقدمی کا کوئی شائبہ نہیں کہ وہ سیاست و حکومت کے موجب ہر طرح سے خوش اقبالی کے سائے میں ہیں اور یہی خوش اقبالی عوام کیلئے بدحالی ہے کہ دو سو روپے کلو والی سبزی ان کیلئے سبزی قدمی ہو گئی ہے۔ سبزی منڈی والے عوام کو لوٹ کر مسرور ہو گئے ہیں اور اکابرین نے پرسش ہی نہیں کی کہ لوٹ مار کی منڈی میں منڈی والوں نے کیا گل کھلا دیئے ہیں۔ سوچنا چاہئے اور روک تھام کرنے ولوں کو جوابدہ ہونا چاہئے کہ سستے پن کو راتوں رات مہنگے پن میں کیوں تبدیل کیا گیا۔ معاشیات کی رو سے پیداوار کی کمی بیشی سے بھی اس طرح کے نرخ ہویدا نہیں ہوتے اور نہ ہی ظالمانہ قیمتوں کے اطلاق کی اجازت دی جا سکتی ہے جبکہ سبزی والوں نے ظالمانہ قیمتوں کا ظلم کر دیا ہے اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ناکام معاشی پالیسیاں جاری رہیں گی۔