میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسلی کشی نہیں ہورہی، آنگ سان سوچی
برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے امن کی نوبل انعام یافتہ میانمار کی حکمران آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ریاست راکھنی میں کارروائیوں کو نسل کشی کا نام دینا غیرمناسب ہوگا تاہم آپریشن کے نتیجے میں پڑوسی ملک جانے والے لوگوں کو کھلے ہاتھوں قبول کیا جائے گا۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروپ نے راکھنی ریاست میں فوج کے کریک ڈاؤن کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا تھا تاہم آنگ سان سوچی نے سیکیورٹی فورسز کا دفاع کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ راکھنی ریاست میں کچھ مسائل ہیں لیکن انہیں نسل کشی کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ راکھنی میں لوگوں کی آپس میں دشمنیاں ہیں جس کی وجہ سے اکثریت مسلمانوں کی ہلاک ہوئی تاہم اب وہاں کے لوگ انتظامیہ کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ میانمار کی فوج کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی اور خواتین کی عصمت دری کے بڑھتے واقعات کے بعد حالیہ چند ماہ کے دوران 70 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان پڑوسی ملک بنگلادیش منتقل ہوچکے ہیں جب کہ اقوام متحدہ نے گزشتہ ماہ راکھنی میں پیش آئے واقعات کی تحقیقات کا اعلان کیا تھا تاہم حکومت نے اقوام متحدہ کو اس کی اجازت نہیں دی۔