مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہ کریں،امریکی وغیر ملکی حکام کا ٹرمپ کو انتباہ
واشنگٹن 6 دسمبر 2017
(بیورو رپوٹ نیوز وائس آف کینیڈا)
اس اقدام سے بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعات رونما ہو سکتے ہیں جس سے لاکھوں جانیں ضائع ہونے کا اندیشہ ہے، ایسے فیصلے آگ سے کھیلنے کے متراد ف ہے،حکام
امریکی اورغیرملکی حکام نے امریکی صدر ٹرمپ کو انتباہ کیا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کادارلحکومت کہنے سے باز رہیں،غیرملکی خبررساںادارے کی رپورٹ کے مطابق اس امکان کے پیش نظرکہ امریکی صدرڈونلڈٹرمپ شایدمقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کادارلحکومت تسلیم کرلیں ،امریکی اورغیرملکی حکام کوتشویش لاحق ہے جنہیںڈر ہے کہ اس اقدام سے بڑے پیمانے پرتشددکے واقعات رونماء ہوسکتے ہیں جس سے لاکھوں جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔
امریکی حکام کے مطابق ایسے کسی بھی فیصلے کو ابتک آخری شکل نہیںدی گئی اور ایسا کرنا عشروں پرمحیط امریکی پالیسی کی خلاف ورزی ہوگی جس میں مقبوضہ بیت المقدس کی تقدیرکے حوالے سے کسی بھی قسم کاموقف اس وجہ سے اختیار نہیں کیا گیا کیونکہ یہ معاملہ اسرائیل اورفلسطینیوںکو مذاکرات سے حل کرناچاہئیے۔اگرامریکی صدرنے ایساکوئی بھی فیصلہ کیاتواس کے باعث تمام دنیاکے مسلمان اورفلسطینی مقبوضہ بیت المقدس کے انتہائی مقدس مقامات’’جنہیں یہودی ٹیمپل مائونٹ اورمسلمان حرم الشریف کے نام سے جانتے ہیں‘‘کی حساسیت کے باعث احتجاج اور مظاہروں پر مجبور ہو جائیں گے ۔
ان مقدس مقامات میں الاقصیٰ مسجدجوکہ عالم اسلام کا تیسرا متبرک ترین مقام ہے اورچٹان کاسنہری گنبدبھی شامل ہیں۔یہ مقام ایک قدیم یہودی عبادتگاہ کامقام بھی ہے جویہودی مذہب کی سب سے متبرک جگہ ہے۔ٹرمپ کے مشیراورداماد جارڈکشنرکی جانب سے اس بات کی وضاحت کے باوجودکہ ایساکوئی فیصلہ فی الحال نہیںکیاگیا،ایک سینئر امریکی عہدیدار کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کادارلحکومت ماننے کااعلان کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے ۔
واضح رہے کہ جارڈکشنر امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کی جانب سے اسرائیلی اورفلسطینی امن بات چیت آگے بڑھانے کی کوششوںکی رہبری کررہے ہیںجس میں فی الحال کوئی قابل ذکرپیش رفت نہیںہوئی۔امریکی وائٹ ہائوس کے مطابق امریکی سفارتخانے کوتل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے بارے میں کوئی اقدام نہیںاٹھایا جائے گا حالانکہ امریکی صدرنے اپنی انتخابی مہم میںایسا کرنے کاوعدہ کیاتھا۔
متعددامریکی عہدیداروںکے مطابق ٹرمپ اس بارے میں ویوورپردستخط کرسکتے ہیں۔ایک عہدیدارکے مطابق اس سلسلے میں ٹرمپ ایک حکم نامے سے اپنے ساتھیوں کوسفارتخانے کی منتقلی سے متعلق سنجیدہ منصوبہ بندی کرنے کیلئے دستخط کرسکتے ہیںتاہم یہ واضح نہیںتھاکہ وہ اس بارے میں کوئی ٹائم ٹیبل قائم کریںگے۔نام نہ ظاہرکرنے کی شرط پرمزید دوامریکی عہدیداروںکاکہناہے یوروشلم کواسرائیلی دارلحکومت تسلیم کرنے کے منصوبے کی خبرکے باعث امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مشرق قریب کے معاملات کا بیوروجس کاسروکاراس خطہ سے ہے سے مزاحمت کاسامناہے۔
خطہ میں واقع ممالک کے کئی سفیروںنے بھی ایسے کسی اقدام کے حوالے سے گہرے خدشات کا اظہار کیاہے۔ان کاکہناہے کہ خدشات کاتعلق سکیورٹی صورتحال سے ہے۔ایک چوتھے امریکی عہدیدارکاکہناہے کہ امریکی انٹلی جنس کااکثریتی اندازہ یہ تھا کہ امریکہ کی جانب سے یروشلم کواسرائیلی دارلحکومت تسلیم کئے جانے کے بعداسرائیل اورمشرق وسطیٰ میںامریکی مفادات کیخلاف شدیدردعمل کاخطرہ پیداہوگا۔
امریکی اتحادیوںنے امریکہ کی جانب سے یک طرفہ طور پرمقبوضہ بیت المقدس کواسرائیلی دارلحکومت کہنے پربے یقینی کااظہارکیا۔اقوام متحدہ کیلئے سعودی سفیر شہزادہ خالدبن سلمان نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ کسی حتمی فیصلے سے قبل امریکہ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کے سٹیٹس پرکسی بھی اعلان کی وجہ سے امن کے عمل پرتباہ کن اثرات مرتب ہونگے جس کے باعث خطے میںتنائومیںاضافہ ہوگا۔
فرانسیسی صدرامانیل میکرون نے حال ہی میںامریکی صدرڈونلڈٹرمپ سے ہونے والی ٹیلی فونک گفتگومیںاس امکان پرخدشات کااظہارکیاہے جس کے تحت امریکہ یک طرفہ طورپرمقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کادارلحکومت تسلیم کرلے ۔اردن کے وزیرخارجہ ایمن سفادی نے اردنی سرکاری نیوزایجنسی پیٹرا میں شائع ایک بیان میںامریکی سیکریٹری آف سٹیٹ ریکس ٹلرسن کوایسے کسی اقدام سے بازرہنے کاکہاہے۔
ان کاکہناہے کہ ایسے کسی اقدام سے پوری اسلامی دنیاخصوصاً عرب ممالک میںغم وغصہ بڑھے گا اورتنائو میں اضافہ ہوگا اورجاری امن کے عمل کو شدید نقصان پہنچے گا۔فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے واشنگٹن میں نمائندہ اعلیٰ حسام زملوت نے کہاہے کہ امریکہ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کوباقائدہ طورپراسرائیل کادارلحکومت تسلیم کیاجانا، اسرائیلی اورفلسطینی تنازعہ کے دو ریاستوںوالے حل کیلئے’’موت کابوسہ‘‘ ہوگا۔
ایسے کسی بھی اقدام کے نہایت تباہ کن اثرات ہونگے۔پانچویں امریکی عہدیدار نے کہاکہ فلسطینی اورعرب رہنمائوںکے مقبوضہ بیت المقدس پر اسرائیلی دعوے کی حمایت کے بارے میںخدشات کوشامل غورتوکیاگیاہے تاہم کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ۔ انسداددہشت گردی سے متعلق سابق امریکی عہدیدارکے مطابق ایسا کوئی بھی امریکی اقدام گویاآگ سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔