مصر کے رعمسیس چوک میں معرکہ فرعون و موسیٰ
فرعون مصر کے قدیم حکمرانوں کا نام ہے فرعون کے معنی سورج دیوتا کی اولاد کے ہیں یہ لوگ سورج کو ”رَغ” کہتے تھے اور فرعون کو اسی سے منسوب کرتے تھا حضرت موسیٰ نے جس فرعون کے ہاں پرورش پائی تھی اس فرعون کا ذاتی نام رعمسیس تھا مصر کار عمسیس چوک اسی کے نام سے منسوب ہے اس چوک میں آج پھر معرکہ فرعون و موسیٰ جاری ہے فرعون نے اُس وقت بھی شکست کھائی تھی اور اب بھی انشاء اللہ شکست سے دو چار ہو گا حق و باطل کے درمیان ازل سے جاری جنگ کی نوعیت ایک جیسی ہے جو صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔
مصری عوام کے ووٹوں سے جیتی ہوئی جمہوری حکومت امریکہ کے گماشتوں کو راس نہیں آئی وہ راس بھی کیسے آتی کہ مصر کے جمہوری صدر مرسی نے ایک اسلامی آئین بنایا محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا اسلام کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے خود نماز کی امامت کرنی شروع کی دو تہائی اکثریت کے باوجود نائب صدر، وزیراعظم اور وزراء کا انتخاب مخالف جماعتوں میں سے کیا۔ اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر لاکر ٢٠٠٦ ء سے بند غزہ کا فتح گیٹ دوبارہ کھول دیا گیا۔
اسرائیل سے گیس کا پُرانا معاہدہ جو رعایتی قیمت پر تھا جو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے وقت پریشئر میں آکر کیا گیا تھا کو ختم کر کے مارکیٹ ریٹ پر گیس کے نئے نرخ طے کئے بس بھٹو کی طرح ایک غلطی کی جنرل ضیاء کی جیسا مولوی صفت جنرل عبدالفتاح السیسی کو مصری فوج کا آرمی چیف مقرر کیا جس نے ٣ جولائی کو مرسی کی جمہوری منتخب حکومت کو ختم کیا مصر میں مرسی کے حامی لاکھوں کی تعداد میں احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوئے قاہرہ میں دو جگہ کیمپ لگائے۔
امریکہ کی تربیت یافتہ فوج کے لیے یہ زہر قاتل بات تھی شراب و کباب کی رسیا فوج کو اسلام کی جائز پابندیاں کہاں قبول تھیں لہٰذا اِس نے اسی قماش کے لوگوں سے مصری مرسی کی منتخب حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کروائے جس کی بنیاد پر تین دن میں امریکہ سے تربیت یافتہ فوج نے امریکہ کی آشیر آباد پر حکومت پر جبری قبضہ کر لیا اور فوراً امریکی صدر اوبامہ نے فوجی حکومت کی تائید میں بیان دیا اور اسے انقلاب کہا اس کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ صدر مرسی کے خلاف اس کے اسٹاف کو فوجی بغاوت کے فیصلے کی حتمی شکل دینے کی اطلاع امریکی اہلکار نے دی تھی۔
ادگر اسرائیل میں خوشی کی لہر چل پڑی اور ۔معلوم دنیا کی تاریخ میں کسی بھی عوامی منتخب حکومت کے خلاف اس قسم کی جارحیت نہیں کی گئی جس کا ارتکاب مصری فوج نے کیا ہے فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت ہوتا ہے نہ کہ منتخب جمہوری حکومتوں میں مداخلت کرنے کا۔جب اس ناجائز مداخلت کے خلاف عوام نے احتجاج کرنا شروع کیا تو اس کو دبانے کے لیے فرعونی طریقے اختیار کئے اور نہتے عوام پر پہلے گولیاں چلائیں،ٹینک چڑھا دئیے اور پھر فوجی ہیلی کاپٹروں سے نہتے عوام پر گولیاں چلا دیں مسجد اور احتجاجی کیمپوں کو جلا دیا گیا جس سے ٨٠٠افراد شہید ہو گئے۔
گولہ باری سے ٨ ہزار لوگ زخمی ہوئے اخوان المسلمین کے ٣٨ قیدیوں کو جلا کر شہید کر دیا گیاحکومت ورثا پر ہلاکتیں دم گُھٹنے سے ہونے کا اقرار نامہ لکھوانے کا دبائو ڈال رہی ہے اور تدفین بھی نہیں کرنے دے رہی ہے رکاوٹوں کے باوجود وکلاء اور ڈاکٹروں نے پریس کانفرنس کر کے عالمی برادری سے انصاف کی اپیل کی ہے فوجی حکومت نے یہودیوں کو خوش کرنے لے لیے غزا کا گیٹ دوبارہ بند کر دیا گیا ہے مصری عدالت نے حسنی مبار ک ڈکٹیٹر کو کرپشن کے کیس میں بری کر دیا ہے اور جلد رہا کر دیے جائیں گے عبوری وزیر اعظم ایک سیونتھ ڈے فرقے کے پروٹسٹنٹ عیسائی ہیں۔
جن سے خیر کی امید نہیں۔ ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ عبوری نائب صدر محمد البرادی یہودی ایجنٹ پہلے حسنی مبارک کے خلاف احتجاج میں اخوان کے ساتھ شریک تھا اب نمائشی طور پر مستفٰی ہو کر آسٹریا کے شہر ویانا میں اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر ہے ذرائع کے مطابق امریکہ کے پالان کے تحت جب عبوری حکومت کو برطرف کیا جائے گا تو البرادی مصر کی حکومت میں شامل ہونے کے لیے لائے جائیں گے۔اخوا ن المسلمین نے ٣ ہزارہلاکتوں کا کہا ہے اس ظلم کے خلاف اسلامی جمعیت طلبہ نے ملک گیر احتجاج کیا۔
انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی۔ ادھر پاکستان میں جماعت اسلامی نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کر دیا ہے پاکستان کی قومی اسمبلی نے شہریوں کی ہلاکت کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کی ہے محمد مرسی کو گرفتار کیا گیا اور ٣٠ دن کے لیے قید کر دیا گیا اقوام متحدہ اور امریکہ کی برائے نام مذمت اور پاکستان کا اظہار تشویش۔پاکستانی امریکی فنڈڈمیڈیا نے مصر کے قتل عام کو نظر انداز کیا رکھا۔ اخوان کی ریلیوں پر مصری فوج کی فائرنگ سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھتے بڑ ھتے ٥ ہزارہو گئی۔
سلامتی کونسل نے پُر تشدد کاروائیاں بند کرنے کے لیے زور دیا ہے۔ مصر کے١٤صوبوں میں کرفیوں نافذ کر دیا گیا ہے اس کے باوجود احتجاج ابھی تک جاری ہے۔ اٹلی نے مصری سفیر کو طلب کیا ترکی نے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے ١٨ اگست کو پورے پاکستان میں جماعت اسلامی نے مصر میں قتل عام کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا ہے ترکی، ٹیونس، لیبیا، ملاشیا، انڈونیشیا اور دوسرے ملکوں میں بھی مظاہرے ہوئے مصری فوج کا قاہرہ کی مسجد الفتح پر حملہ ٢٥٠ افراد شہید سیکڑوں زخمی۔
ایمن الظواری کے بھائی گرفتار، اخوان المسلمین کے مرشد عام کے بیٹے بھی شہید ہو گئے ہیں جرمنی نے امداد منجمند کر دی ہے و ینزیلا نے بھی سفیر واپس بلا لیا ہے تعلقات پر نظر ثانی کے لیے یورپی وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس۔ تشدد بند کیا جائے یورپی یونین کی مصر کو تنبیہ۔ جرمن چانسلر کی فرانسیسی صدر سے گفتگو ۔ایران نے کہا ہے کہ اوآئی سی قتل عام بند کروائے۔ اسرائیلی سفیر نے کہا ہے جنرل السیسی یہودی عوام کے ہیرو ہیں مصری عبوری حکومت اخوان المسلمین پر پابندی کا سوچ رہی ہے اخوان کے ٤٢ رہنما گرفتار کر لئے گئے یہ ہے گزشتہ دنوں کی روداد جو ہم نے آپ کے گوش گزار کی ہے۔
قارئین! مصری حکومت کے خلاف دنیا میں احتجاج بڑھ رہا ہے جمہوری دنیا فوجی حکومت کے خلاف اپنے اپنے انداز میں احتجاج کر رہی ہے جہاں تک اخوان المسلمین کا تعلق ہے اس کے لیے فوجی انقلاب کچھ نیانہیں ہے فرعون کے جانشینوں کی زمین پر اخوان المسلمین ٦٦ سال سے بھی زیادہ مدت سے مقابلہ کر رہے ہیں ان کی لیڈر شپ کوپھانسی پر چڑھا دیا گیا تھاان پر تشددکر کے ساری دنیا میں تتربتر کر دیا گیا تھا ان پر برسوں تک پابندی لگائی گئی تھی۔
وہ مختلف ناموں سے مصر کی سیاست میں حصہ لیتے رہے ٣٠سالہ ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف تاریخ کے سب سے بڑے ٤٠ لاکھ کے اجتماع کئے اور بلاآخر پچھلے انتخاب میں پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کی اور جمہوری نظام حکومت قائم کیا کمہوری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے نائب صدر ،وزیر اعظم اورکابینہ میں مخالف جماعتوں کو شریک کیا متفقہ آئین دیا مگر کیا کیا جائے۔
امریکہ کو اور مغرب کو اسلام پسند جمہوری حکومتیں دنیا میں کہیں بھی قبول نہیں جیسی الجزائر کی منتخب حکومت کو فوج کے ذریعے ختم کیا گیا تھا اپنے باجگزار اور ڈکٹیٹر حکمرانوں کو اسلامی دنیا میں دیکھنا چاہتا ہے مگر کب تک؟ جب دنیا میں پہلے بھی فرعون نہیں رہے تو امریکہ سمیت موجودہ فرعون بھی نہیں رہیں گے یہ مکافات عمل ہے