مختلف پیمانے
کالم:- طارق حسین بٹ شانؔ
17 جنوری 2018 پاکستان میں جمہوری قدروں ان کی مضبوطی کا دن بن کر سامنے آیا۔ متحدہ اپوزیشن کا مطمع نظر تو حکومت گرانا تھا لیکن ان کی بے وقت کی راگنی جمہوریت کو مضبوطی عطا کر گئی۔ وہ لوگ جو حکومت کے خاتمے کی خواہش لے کر میدان میں اترے تھے انھیں ناکام ونامراد لوٹنا پڑا کیونکہ عوام نے ان کی آواز پر لبیک کہنے سے انکار کر دیا تھا۔سچ تو یہ ہے کہ عوا م کی سرد مہری نے اپوززیشن کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا اور یوں اپوزیشن کی ناکامی سے جمہوریت کونئی توانائی نصیب ہوئی۔۷۱ جنوری کو عوام نے ایک نیا بیانیہ رقم کیااور ووٹ کی پرچی سے حکومت کی تبدیلی کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔بہت سوں کو یہ بات بڑی حیران کن نظر آئے گی لیکن سچ یہی ہے کہ لوگ انتشار اور فساد کی سیاست سے خود کو دور رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ اس سے پاکستان مزید غیر مستحکم ہو جائیگا۔پاکستانی عوام دنیا کی مہذب اقوام کے شانہ بشانہ چلنا چاہتے ہیں اور ایساجمہوری روش سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔وردی میں ملبوس اور سینوں پر جرات و بسالت کے تمغے سجائے کچھ طالع آزما چند سالوں کے بعد تواتر سے ٹیلیویشن پر میرے ہم وطنو کا جو خطاب داغتے ہیں عوام اس سے بے زار ہیں۔ وہ اپنے نمائندے خود اپنے ہاتوں سے چننا چاہتے ہیں اور اور پھر انھیں جواب دہ بنانا چاہتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ کرپشن اور بد دیانتی سے معاشرہ تعفن زدہ ہو رہا ہے لیکن عوامی شعور سے ہی اس میں بہتری کی کرنیں پھوٹ سکتی ہیں۔جمہوری بساط کو الٹنا اور پھر اپنا نیا نظام دینا پاکستان کو کبھی راس نہیں آیا بلکہ اس عمل نے ملک کی شکست و ریخت میں تیزی پیدا کی جس کا خمیازہ ۶۱ دسمبر ۱۷۹۱ کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔جو وفادار تھے وقت کے بے رحم ہاتھوں نے انھیں وطن دشمنوں کی صف میں کھڑا کر دیااور پھر پاکستان بنانے والوں نے ہی پاکستان کے ٹکرے ٹکرے کر دئیے۔بنگال ہی تو تخلیقِ پاکستان کی اصل قوت تھا لیکن اسی قوت کی حامل لیڈر شپ کو نظر انداز کیا گیا۔حسین شہید سہروردی جیسے محبِ وطن اور آزادی کے ہیرو کو زندانوں کی نظر کیا گیا جس سے شیخ مجیب الرحمان جیسے قائدین کو گل کھلانے کا موقعہ مل گیا۔حقو ق کی جنگ لڑنا ہی اصل جمہوریت ہے لیکن اگر جمہوریت میں اہلِ اقتدار طبقہ اور اسٹیبلشمنٹ سیاسی مخالفین کی آواز کو سننے سے انکار کر دیں گے تو پھر مخالفین کہاں جائیں گے؟سیاست ایک بیانیہ پر استوار ہو تی ہے۔استحصال زدہ افراد ہمیشہ نیا بیانیہ لکھتے ہیں اور عوام کی محرومی اس میں رنگ بھرتی ہے۔مشرقی پاکستان کی داستان اسی محرومی سے جم لینے والے غصے اور انتقام کی داستان ہے لیکن اقتدار کی مسند پر برا جمان اس غم و غصہ کو دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔وہ عوامی جذبات کو قوت سے کچلنا چاہتے ہیں لیکن کیا جذبوں کو قوت سے کچلا جا سکتا ہے؟ زارِ روس جیسے متکبر حکمران عوامی غم و غصے کو کچلنے میں ناکام ہو جا ئیں تو پھر پاکستان کے کمزور حکمران عوامی سیلاب کو کہاں سہہ سکتے ہیں۔ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب عوامی طاقت کے سامنے بندوقیں،توپیں،میزائل اور شمشیریں خاموش ہو جاتی ہیں یہی تاریخ کا سبق ہے لیکن تاریخ کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتاہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ ناعاقبت اندیش حکمران اپنی جھولیوں میں آگ کے انگارے بھرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے سب کچھ خاکستر ہو جاتا ہے۔،۔
۷۱ جنوری کے جلسے اور احتجاج کو جس طرح میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا اس سے ہر شخص اسیرِ خوف و ہراس تھا۔فیض آباد کے دھرنے کی یادیں ابھی تازہ تھیں لہذا لوگ ۷۱ جنوری کے طاقت کے مظاہرے (پاور شو) سے بڑے سہمے ہوئے تھے۔ مال روڈ پر د ھرنے کے معنی یہ تھے کہ کچھ ایسی انہونی ہونے والی ہے جس سے پورا ملک ساکت و جامد ہو جائیگا اور یوں پورا ریاستی ڈھانچہ دھڑام سے زمین بوس ہو جائیگا اور ملک میں پر افرا تفری کے بادل چھا جائیں گے۔ عمران خان،پی پی پی اور علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے مشترکہ جلسے کا مقصد مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا خاتمہ تھا اور اس کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار تھے۔علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا پنا اندازِ بیاں ہے۔وہ جب مائک پر آتے ہیں تو جوشِ خطابت میں انھیں کچھ ہوش نہیں رہتا۔سانحہ ماڈل ٹاؤن پر پی پی پی اور پی ٹی آئی کو ایک سٹیج پر بٹھانا بہت بڑا کارنامہ تھا لیکن اس کارنامہ کا مقصد ماڈل ٹاؤن کے شہدا کے قصاص سے زیادہ سیاسی پوانٹ سکورنگ تھا۔کسی بڑے مقصد کی آڑ میں جب ذاتی کھیل کھیلا جائے تو عوام اس سے لا تعلق ہو جاتے ہیں۔وہ اپنی قیادت سے بڑے پن کا اظہار چاہتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ اپنے مخالف کو کھلے میدان میں پوری دیانتداری سے للکارا جائے اور اسے سب کے سامنے شکست دی جائے۔ماڈل ٹاؤن کے شہدا کے نام پر سیاسی دکان چمکانے کو عوام نے مسترد کر دیا تھا۔ماڈل ٹاؤن کے شہداء کی قربانی کیا کسی کے اقتدار کی خاطر تھی؟شہادت کو اگر شہادت ہی رہنے دیا جاتا تو پورا ملک اس کیلئے اٹھ کھڑا ہو تا لیکن یہاں شہدا کے نام پر حکومت کی تبدیلی اور وزیرِ اعلی پنجاب کے استعفی کے مطالبے کو بنیاد بنایا گیا جسے عوام نے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے ساتھ تو پوری قوم کی دھڑکنیں ہیں اور ہر کوئی ان کیلئے انصاف کا طالب ہے لیکن اس کے باوجود بھی ۷۱ جنوری کا پاور شو ناکام ہوا تو اسے قائدین کی بد نیتی سے ہی منسوب کیا جا سکتا ہے۔قصور کی معصوم زینب کے قاتل اسی لئے پکڑے گے ہیں کہ اس ایشو کو سیاسی بنا کر حکومت کے خلاف دھرنے اور لاک ڈاؤن کی کال نہیں دی گئی بلکہ انسانی حرمت اور تقدس کی بنیاد پر ا حتجاج کی پر امن راہ اپنائی گئی۔ پوری قوم سراپا احتجاج بنی تو قاتل کو ڈھونڈ نکا لا گیا حالانکہ ہمارے ہاں اس طرح کے واقعات میں مجرم اکثر بچ جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ عوامی دباؤ اتنا شدید تھا کہ حکومت کے پاس مجرم کو گرفتار کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔حکومت کی دن رات کی کاوشوں کے نتیجے میں مجرم گرفتار ہو چکا ہے اور عدلیہ اسے سزا دینے کیلئے بیتاب ہے۔در اصل ملزم کا جرم اتنا سنگین ہے کہ اس کیلئے ہر ذی روح زخمی ہے۔شکر ہے کہ معصوم زینب کا ایشو سیاست کی نذر نہیں ہوا۔سچ تو یہ ہے کہ قانون و انصاف اتنا گونگا اور بہرہ نہیں کہ وہ کسی حقدار کو انصاف نہ دے سکے اب تو عدالتیں بھی آزاد ہیں۔عدلیہ حکومت کے خلاف پہلے ہی بپھری ہوئی ہے۔میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے بعدحکومت اور عدلیہ میں ایک خاموش جنگ جاری ہے جس کا بھر پور فائدہ متاثرینِ ماڈل ٹاؤن اٹھا سکتے ہیں۔جو پہلے نہیں ہوا اب ہو رہا ہے لیکن پھر بھی اپوزیشن عدالت کا رخ کرنے کی بجائے سڑکوں، چوکوں اور چوراہوں میں انصاف تلاش کررہی ہے۔اگر کسی کو ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے خون پر انصاف چائیے تو اسے عدالتِ عالیہ کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرنا ہو گا۔ماضی میں حکومتیں عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہو تی رہی ہیں لیکن اب سارا منظر تبدیل ہو چکا ہے۔آج کی عدلیہ وہ عدلیہ نہیں ہے جس میں ملک قیوم جیسے ججز میاں برادران کے ایک اشارے پر سزا سنا دیا کرتے تھے۔اب جن کے اشاروں پر سزائیں ہو تی تھیں وہ تو خود ہی سزا یافتہ ہو رہے ہیں تو پھر عدلیہ پر دباؤ کون ڈال سکے گا؟عوام کو اس ایشو پر میاں برادران سے کسی قسم کی ہمدردی نہیں ہے لیکن انھیں اپوزیشن کی حکمتِ عملی سے بالکل اتفاق نہیں ہے۔ فیصلہ کو جہاں سے صادر ہو نا چائیے وہی سے حتمی فیصلہ صادر ہو گا تو بات بنے گی۔ منتخب قیادت کیلئے سیاسی میدان سجتے اورسیاسی جلسے جلوس ہوتے ہیں لہذا قیادت کا حتمی فیصلہ وہی پر ہوتا ہے جبکہ عدل و انصاف کا فیصلہ عدالت کے روبرو ہونا ہے لہذا اسے سیاسی جلسہ گاہ میں لے جانے سے کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔اب بھی وقت ہے کہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کا مقدمہ عدالتوں میں لڑا جائے اور اس میں جو لوگ بھی ملوث پائے جائیں انھیں کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔اگر قائدین عوامی رائے پر کان دھریں گے تو اس میں سب کی بہتری ہے وگرنہ ماضی کی طرح یہ ایشو میڈیا کی زینت بنا رہیگااور کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا۔،۔