کالم,انٹرویو

محرم رشتے یا جنسی درندے … ؟؟؟

کیا آج کی بچیاں اپنے محرم رشتوں سے بھی محفوظ نہیں؟ ماحول یا معاشرے میں یہ بگاڑ کیونکر پیدا ہو رہا ہے ؟بچیاں جائیں تو کہاں جائیں؟ ممکن ہے کچھ لوگوں کو ان سوالات پر شدید قسم کے اعتراضات ہوں مگر ان سوالات کے پیدا ہونے کی وجہ کے پیچھے کچھ وجوہات و واقعات ہیں جن کا ذکر آگے ہوگا.ھم سب بحیثیت مسلمان اپنے تئیں ایک اسلامی معاشرے کے باسی ہیں جہاں ہمیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے . ہمارے نام مسلمانوں والے اور کام بھی کسی حد تک مسلمانوں والے ہیں .ھم محرم رشتوں کے تقدس سے بھی واقف ہیں .اس لئے یہ توقع کی جاتی ہے کہ محرموں میں آپس میں میل جول میں کسی حجاب یا حدود و قیود کی کیا ضرورت ؟
میری یہ سوچ تب تک تھی جب تک میری والدہ نے محلے کی مسجد کی انتظامیہ کی اجازت سے اپنے محلے کی عورتوں کو نماز و سورتیں سکھانے اور بچیوں کو ناظرہ قرآن پڑھانے کا آغاز نہیں کیا تھا.عورتوں کی آمد شروع ہوئی اوروالدہ کو اپنا ہمدرد سمجھ کر دل کے پھپھولے پھوٹنے لگے.ان کے گھروں کی ایسی ایسی بھیانک کہانیاں سننے کو ملیں کہ والدہ سکتے میں آ جاتیں اور تمام دن پریشان اور غمزدہ رہتیں .کئی عورتوں کے مطابق ان کے شوہر انہیں کئی بار (یعنی تین سے زیادہ بار )طلاق دے چکے ہیں مگر جانے نہیں دیتے. وہ خود بھی اتنی ہمت جتا نہیں پاتیں کہ اپنے بچے اور گھر بار چھوڑ کر بے آسرا ہو جائیں.نتیجتا خاموشی سے حرام کاری کی زندگی بسر کر رہی ہیں.کچھ کے مطابق وہ مشترکہ خاندانی نظام میں رہ رہی ہیں جہاں ان کی بیٹیاں اپنے ہی محرمات مثلا چچا، تایا یا ماموں وغیرہ یا نا محرمات مثلا کزنز کی ہوس کا شکار ہو تی رہیں یا ہو رہی ہیں یا پھر بہوئیں اپنے سسر کی گندی نظر یا حرکات سے تنگ ہیں . اور اس طرح ایسی بچیاں ، مائیں اور بہوئیں ہمارے ہاں رائج خاندانی نظام کی قدغنوں اور دباؤ کی وجہ سے گھٹ گھٹ کر اس درندگی کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں . اس کی وجہ وہی بھروسہ ہے جو کہ شوہر کو اپنے باپ یا بھائیوں پر ہوتا ہے .جبکہ کچھ کے مطابق بچیوں کا باپ ہی بچیوں پر گندی نظر رکھتا ہے.تب حرف شکایت زبان پر لانا مزید مشکل ہو جاتا ہے جب ہوس پر مبنی واقعات کے ثبوت پیش کرنا ممکن نہ ہو اور چپ چاپ اسے اپنی نظروں کے سامنے برداشت کیا جائے جو کہ ایک جیتے جاگتے انسان کو زندہ درگور کر دینے والی صورتحال ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہمارااسلامی معاشرہ اس اس راستے پر کیوں جا رہا ہے پر اس صورتحال سے بچنے کا کیا طریقہ ہے ؟
مفھوم حدیث ہے ہے کہ جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرو۔

اور میڈیا اس وقت ہمارے گھروں کی حیا ختم کرکے ایسی دلدل میں دھکیل چکا ہے جہاں شرم ، جھجھک اور پردہ جیسے الفاظ اجنبی معلوم ہوتے ہیں .میڈیا کے بہکاوے میں آ کر آج بیٹیاں اور باپ، بہن اور بھائی، چچا اور بھتیجیاں ، ماموں اور بھانجیاں ایک ساتھ بیٹھ کر اخلاق باختہ ڈرامے اور فلمیں دیکھنے کو معیوب خیال نہیں کرتے.نتیجتا محرم رشتوں کی پامالی دیکھنے میں آ رہی ہے.فحش موویز اور کیبل کلچر نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے جس نے کچھ مردوں کی حیوانیت کو ابھار کر انھیں چلتے پھرتے جنسی درندوں میں بدل دیا ہے .کچھ عرصہ قبل جسٹس سعید الزمان صدیقی کے ایک بیان پر کافی لے دے ہوئی اور مذاق اڑایا گیا کہ باپ اور بیٹی کا ایک کمرے میں تنہا بیٹھنا اسلامی اعتبار سے درست نہیں.اس میں کیا شکے ہے کہ دنیا میں سب سے خوبصورت رشتہ باپ کا اپنے بچوں اور خصوصا اپنی بیٹی کے ساتھ ہوتا ہے.کون بدبخت ایسا ہوگا جو اس رشتے کو پامال کرے . لیکن ھم اخبارات میں ایسی خبریں پڑھتے ہیں کہ ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں .بہت سے واقعات کا ذکر نہیں بھی کیا جاتا اور معاملہ دبا دیا جاتا ہے. میں یہ نہیں کہتی کہ ہمارے معاشرے کا ہر باپ جنسی درندہ ہوتا ہے مگر اس سچائی سے بھی انکار نہیں کہ جب کچھ ذہنی و جنسی بیمار مردوں پر بےحیائی کا غلبہ ہوتا ہے تب وہ باپ، بھائی، چچا یا ماموں نہیں رہتے تب وہ یہ خوبصورت رشتے تو درکنار، انسانیت کی ردا بھی تار تار کر دیتے ہیں..اورشیطان کے وار سے بلعم باعورجیسے بڑے بڑے عابد نہیں بچ سکے تو چودھویں صدی کا مسلمان کیا دعوی کر سکتا ہے.. میری خالہ کے گھر ایک غریب دائی صدقہ لینے آتی ہے. ایک بار میری موجودگی میں وہ آئ اور باتوں باتوں میں خالہ کو کوڈ ورڈز میں کہنے لگی کہ اس ماہ میں نے تین کیس “خراب “کیے جن میں سے ایک باپ، دوسرا بھائی اور تیسرا ایک چچا کا تھا. یہ تینوں رشتے اس قدر محترم کہ سن کر ہی پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔
ان مسائل سے کیسے نمٹا جائے ؟ ممکن ہے اسے مبالغے پر مبنی سمجھا جائے مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے نو بالغ لڑکوں یا گھر کے مردوں میں ہیجان سب سے پہلے اپنے گھر کی مستورات کے نامناسب لباس دیکھ کر پیدا ہوتا ہے.مائیں ، بیٹیاں اور بہنیں گہرے گلے، آدھی آستینوں اور چھوٹے چاکوں والی قمیضوں کے ساتھ چست پاجامے پہن کربنا دوپٹے کے گھر میں پھریں گی تو شیطان کو اپنا وار کرنے کا بھر پور موقع ملے گا.اسی لئے اسلام نے عورت کو سینہ چھپانے اور اوڑھنی ڈالنے کا حکم دیا ہے .گھر کا ماحول ماں پاکیزہ بنائے گی تو اولاد حیا دار ہوگی . حیا اپنے ساتھ انوار و برکات لازما لاتی ہے ورنہ جو تربیت میڈیا اور انٹر نیٹ ہمارے گھروں کی کر چکا ہے اس کے یہی ثمرات اور نتائج دیکھنے کو ملیں گے.ایسے معاشرے میں جہاں شادی کی عمر 28, 30سال ہو وہاں 14 سال کا ایک نو عمر لڑکا گھر کی عورتوں کے حلیوں سے حظ کشید کرکے مشترکہ خاندانی نظام کا “فائدہ” کیونکر نہ اٹھائے گا.اس تحریر میں طبقہ اشرافیہ کی بات نہیں ہو رہی کیونکہ ان کے ہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے .یہاں موضوع بحث لوئر یا مڈل کلاس دنیا دار گھرانے ہیں جن میں پرائیویسی کا تصور نہیں وہاں ایسے واقعات رونما ہوجا تے ہیں اور “ڈھانپ” دیے جاتے ہیں .کیونکہ زنان خانہ اور مردان خانہ اب ہمارے نزدیک آؤٹ ڈیٹڈ ہو چکا ہے اور ایک یا دو کمروں میں رہائش پذیر خاندان پرائیویسی کے مفھوم سے بھی واقف نہیں.جدیدیت کی دوڑ میں حیا سے غفلت برت کر جو نتائج سامنے آ رہے ہیں انکا سدباب نہ کیا گیا تو حالات مزید بھیانک ہوتے جائیں گے.اس سلسلے میں کچھ تجا ویز پیش خدمت ہیں۔۔
بچیاں اور مائیں ساتر لباس استعمال کریں.فیشن کریں مگر ستر ڈھانپنے کے اہتمام اور حیا کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے .فیشن صرف ہاف سلیوز، گہرے گلوں یا چست پاجاموں کا نام نہیں.مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے والی بہوؤں اور بچیوں پر با حیا لباس استعمال کرنے کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
حرمت مصاہرت کے مسائل بچیوں، بچوں اور باپوں کو ازبر ہونے چاہئیں ۔
بہوئیں سسر حضرات کو اور بچیاں بلوغت کے بعد والد کو نہ دبائیں نہ ہی کوئی اور جسمانی خدمت کریں یا لپٹیں . والد یا سسر کی جسمانی خدمت ان کے بیٹے ، مائیں یا ساس کریں اور اگر ماں یا ساس زندہ نہ ہو یا کوئی اور ا شد ضرورت یا مجبوری ہو تو اس بارے میں گنجایش کی تفصیلات و مسائل کے لئے مفتیان کرام سے رجوع کریں .مگرعموما ہمارے ہاں سسر بیمار ہو جائے تو بعض گھروں میں اس کے کپڑے بدلنے کی خدمت بھی بہو کے ذمے لگا دی جاتی ہے جو کہ ظلم اور سخت بےحیائی ہے ۔
بہوئیں سسر حضرات اور بیٹیاں باپ کے ساتھ بیٹھ کر اکیلے یا سب کے ساتھ ٹی وی دیکھنے سے پرہیز کریں . اور مائیں بھی اپنے چودہ پندرہ سال سے بڑے بیٹوں اور محرم رشتوں سے جسمانی کنکشن یعنی گلے لگانے ، لپٹنے یا چومنے سے پرہیز کریں۔
باپ بیٹیوں کے کمرے میں دروازہ کھٹکھٹا کر آئیں یا دور سے کھنکھارتے ہوئے آئیں تاکہ بچیاں اپنا لباس درست کر لیں . یہی صورت ایک یا دو کمروں کے گھر میں رہائش پذیر ہو کر بھی اختیار کی جا سکتی ہے۔
باپ بچیوں کوسوتے سے مت جگائیں اور یہ ذمہ داری والدہ سر انجام دے. کیونکہ سو تے میں لباس بے ترتیب ہو سکتا ہے
بھائیوں یا محرم رشتوں کے ساتھ ہنسی مذاق میں ہاتھ مارنا ، پیا ر میں گلے لگنا یا سلام کے لئے ہاتھ ملانا صرف ڈراموں فلموں کی حد تک ہی رہنے دیں.ایک اسلامی معاشرے کے مکینوں کے لئے اس کی کوئی گنجائش نہیں .مگر اب یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ بہنویوں یا کزنز سے ہاتھ ملانا اور شادی بیاہ میں ان کے یا محرم رشتوں کے ساتھ ناچنا گانا معیوب نہیں سمجھا جاتا اور تبھی شیطان اپنے داؤ پیچ آزما لیتا ہے ۔
لاڈ میں چچاؤں کے گلے جھول جانا ، ماموؤں سے بغل گیر ہونا، باپ بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر انڈین ڈرامے دیکھنا جن کی کہانی ہی نا جائز معاشقوں سے شروع ہو کر نا جائز بچوں کے جنم سے آگے بڑھتی ہے اور حمل و زچگی کے منا ظر عام سی بات ہیں ، ان سب سے بچیں
بچیوں کو سکھائیں کہ وہ خود کو جتنا ڈھانپ کر رکھیں گی اور محتاط ر ہیں گی اتنا ہی ان کے ایمان ، قلب و چہرے کے نور میں اضافہ ہوگا اور کسی کو ان “چھیڑ چھا ڑ ” کی بھی جرات نہ ہوگی ۔
اپنے گھروں سے کیبل کلچر کا خاتمہ کریں . اس معاملے میں اپنی بات اسی طرح منوائیں جس طرح دنیا داری کی بقیہ باتیں منوائی جاتی ہیں ۔
یاد رہے کہ یہ سب اقدامات حرف آخر نہیں بلکہ احتیاطی تدابیر ہیں جنہیں اپنانے کے باوجود اگر کوئی محرم رشتہ جنسی درندہ بن جائے تو اس کا علاج سنگساری یا کپیٹل پنشمنٹ ہے تاکہ بقیہ درندوں کی حیوانیت کو لگام دی جا سکے۔
لبرل حضرات میری تحریر سے دور رہیں کیونکہ ان کے ہاں مادر پدر آزادی ہی انسانیت کی معراج ہے. یہ تحریر ان کے بیمار قلوب و اذہان کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button