رنگ برنگ

ماہرینِ ارضیات نے مطالبہ کیا ہے کہ سمندر کے نیچے واقع زمین کے ایک وسیع ٹکڑے کو آٹھویں براعظم تسلیم کیا جائے۔

ویلنگٹن: نیوزی لینڈ کے ماہرینِ ارضیات نے مطالبہ کیا ہے کہ سمندر کے نیچے واقع زمین کے ایک وسیع ٹکڑے کو آٹھویں براعظم یعنی ’’زی لینڈیا‘‘ کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے۔
یہ مطالبہ انہوں نے جیولوجیکل سوسائٹی آف امریکہ کے ریسرچ جرنل میں شائع ہونے والی ایک تازہ رپورٹ میں کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ’زی لینڈیا‘ 50 لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط ہے جو پڑوسی براعظم آسٹریلیا کے رقبے کا دو تہائی ہے۔ البتہ زی لینڈیا کا تقریباً 94 فیصد حصہ سطح سمندر کے نیچے ہے جبکہ اس کا صرف 6 فیصد حصہ ہی سطح سمندر سے اوپر ہے جو کچھ چھوٹے جزیروں کے علاوہ جنوبی اور شمالی نیوزی لینڈ اور نیو کیلیڈونیا کی صورت میں خشکی کے بڑے ٹکڑوں کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اس خطہ زمین کو علیحدہ براعظم قرار دلوانے کی یہ کوئی نئی کوشش نہیں بلکہ نیوزی لینڈ کے ارضیات داں نک مورٹائمر پچھلے 20 سال سے اس پر تحقیق کررہے تھے اور اعداد و شمار جمع کرنے میں مصروف تھے کیونکہ انہیں اس نئے براعظم کی موجودگی کا پورا یقین تھا۔
عام طور پر خشکی کے بڑے ٹکڑوں ہی کو براعظم شمار کیا جاتا ہے جن کی تعداد اب تک 7 ہے جن میں انٹارکٹیکا، آسٹریلیا، ایشیا، یورپ، افریقہ، شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ شامل ہیں۔ نیوزی لینڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آسٹریلوی ارضیاتی پلیٹ (ٹیکٹونک پلیٹ) کا حصہ ہے اس لیے اسے علیحدہ براعظم کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔
اس مقبول رائے سے اختلاف کرتے ہوئے مورٹائمر اور ان کے ساتھیوں نے نیوزی لینڈ اور اس کے گرد و نواح میں واقع زیرآب ارضیاتی ساختوں کا جائزہ لینا شروع کیا۔ اب ان کا کہنا ہے کہ ان کے مجوزہ ’’زی لینڈیا‘‘ میں وہ تمام خصوصیات ہیں جو کسی بھی جداگانہ براعظم میں ہونی چاہئیں یعنی یہ ارد گرد کی ارضیاتی ساختوں سے نسبتاً اونچا ہے، اس کی ارضیاتی خصوصیات منفرد ہیں، اس کا رقبہ بھی بالکل واضح اور قابلِ پیمائش ہے جب کہ اس کا قشر (کرسٹ) سمندری فرش کی معمول کی موٹائی سے کہیں زیادہ موٹا بھی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان تمام باتوں کی بنیاد پر ’زی لینڈیا‘ کو صرف علیحدہ نام ہی نہیں دیا جائے بلکہ اسے بین الاقوامی طور پر دنیا کا آٹھواں براعظم بھی تسلیم کیا جائے۔ مگر یہ فیصلہ اتنا آسان اور سیدھا سادا نہیں ہوگا کیونکہ فی الحال ماہرینِ ارضیات کی ایسی کوئی عالمی تنظیم موجود ہی نہیں جو ایسے کسی بھی دعوے کا تفصیل سے جائزہ لے سکے اور دنیا میں آٹھویں براعظم کے موجود ہونے یا نہ ہونے کا باضابطہ (آفیشل) اعلان ہی جاری کرسکے۔
واضح رہے کہ طبیعیات، کیمیا، حیاتیات اور فلکیات وغیرہ کی ایسی عالمی تنظیمیں موجود ہیں جو درجہ بندیوں کا جائزہ لیتی رہتی ہیں اور ضرورت پڑنے پر ان میں تبدیلیاں بھی کرتی رہتی ہیں۔ اس کی مشہور مثال 2006 کا واقعہ ہے جب فلکیات دانوں کی عالمی تنظیم (آئی اے یو) نے طویل بحث و مباحثے کے بعد نظامِ شمسی میں سیاروں کی نئی تعریف مقرر کی تھی اور جس کے تحت پلوٹو کو سیاروں کی فہرست سے خارج کرتے ہوئے اسے ’’بونا سیارہ‘‘ (Dwarf Planet) قرار دیا گیا تھا۔
اس کے بعد سے دنیا بھر کی نصابی کتابوں میں بھی سیاروں کی تعریف بدل دی گئی اور آج بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ نظامِ شمسی میں 8 بڑے سیارے (Major Planets) ہیں جن میں ہماری زمین بھی شامل ہے جبکہ ابھی ہم صرف پانچ بونے سیاروں یعنی پلوٹو، سیرس، ایرس، ہاؤمیا اور ’’ماکے ماکے‘‘ سے واقف ہیں۔
اسی طرز پر ’زی لینڈیا‘ کےلیے دنیا کے آٹھویں براعظم کا درجہ پانا بہت مشکل ہوگا لیکن بہت ممکن ہے کہ ماہرینِ ارضیات کی عالمی تنظیم اس حوالے سے اپنے مینڈیٹ پر نظرِ ثانی کرلے اور ہمیں جلد ہی اس مسئلے کا کوئی حل میسر آجائے۔
بتاتے چلیں کہ ویلنگٹن، نیوزی لینڈ میں جنگلی حیات کی ایک محفوظ پناہ گاہ ’’کروری وائلڈ لائف سینکچوئری‘‘ کا نیا نام بھی ’’زی لینڈیا‘‘ ہے اور اسی سے متاثر ہوکر ماہرینِ ارضیات نے مجوزہ آٹھویں براعظم کےلیے یہ نام منتخب کیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button