کالم,انٹرویو

مادری زبان کا عالمی دن اور اس کے تقاضے

منور علی شاہد
(بیورو چیف جرمنی نیوز وائس آف کینیڈا)
کسی بھی ملک کی زبان اس ملک کی ترجمان ہوتی ہے اس ملک کی سیاسی، ثقافتی، مذہبی اور معاشرتی زندگی کو سمجھنے کے لئے سب سے بہترین اور بہتر ذریعہ زبان ہوتی ہے اس پر دسترس حاصل کرنے کے بعد معاشرہ میں تیزی سے مدغم ہو کراس ملک کا ایک بہترین شہری بن سکتے ہیں اسی لئے آج بھی دنیا کی بڑی بڑی اقوام کے اندر ان کی اپنی زبان کو ہی فوقیت دی جاتی ہے۔ گزشتہ ماہ21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن منایا گیا یہ دن ہر سال اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارہ UNESCO یونیسکوکی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ کی روشنی میں نومبر1999 سے ہر سال اکیس فروری کو مادری زبان کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ آکسفورڈیو نیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا6912 زبانیں بولی جاتی ہیں ان میں516 ناپید ہوچکی ہیں۔دنیا میں سب سے زیادہ زبانیں پاپوانیوگنی میں بولی جاتی ہیں جن کی تعداد860 ہے جو کہ کل زبانوں کا بارہ فیصد بنتا ہے اس کے بعد انڈونیشیا ہے جہاں742 زبانیں بولی جاتی ہیں اس کے علاوہ نائجیریا میں516 ۔ بھارت میں425۔امریکہ میں311،آسٹریلیا میں275 اور چین میں241زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مختلف عالمی رپورٹس کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ بولی جانی والی مادری زبان چینی ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد87کروڑ30 لاکھ ہے جب کہ دیگر مادری زبانیں بولنے والوں میں ہندی 37کروڑ،ہسپانوی 35کروڑ ۔انگریزی34کروڑ جب کہ عربی بولنے والوں کی تعداد20کروڑ ہے۔ ایک جائزہ کے مطابق صرف75 زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے دس کروڑ سے زائد بولی جانی زبانوں کی تعداد صرف 8 ہے ۔ انگریزی نہ صرف ایک مادری زبان ہے بلکہ اس کو ایک عالمی ثانوی زبان کی حثیت مل چکی ہے جو رابطے کا ذریعہ بن رہی ہے اور اس طرح اس کے بولنے والوں کی تعداد میں مسلسل آضافہ ہو رہا ہے مادری زبان انسان کی شناخت ہوتی ہے اور ریاستی اداروں کی ترقی کا ضامن ہوتی ہے پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے جسے28 فیصد پاکستانی بولتے ہیں، سندھی بارہ فیصد ، سرائیکی دس فیصد، انگریزی اردو اور پشتو بھی پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں میں شامل ہیں جبکہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے جس کے نفاذ کے لئے سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلے کے بعد اب متعدد عملی اقدامات کئے چا چکے ہیں تازہ ترین فیصلہ مقابلے کے امتحانات کا اردو زبان میں لینے کا ہے جو کو شدید تنقید کا بھی سامنا ہے اسی طرح سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں عدالتی، دفتری امور بھی اردو زبان میں چلانے پر کام شروع کیا گیا ہے لیکن لگتا ہے کہ یہ بادل ناخواستہ ہو رہا ہے ہم نے قومی زبان کو ماننے سے عملآ انکار کرتے آرہے تھے اب پنجابی اور دیگر زبانوں کے بولنے والے پاکستانیوں کی طرف سے ان کی مادری زبانوں کے تحفظ اور ان کے فروغ کے مطالبات کئے جا رہے ہیں جو کہ جائز مطالبہ ہے لیکن یہ سب کچھ انتہائی کھلے دل و دماغ، فراست اور بردباری و تحمل سے ہی ممکن ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں قومی زبان میں صرف گالی گلوچ ہی دی جاتی ہے یا تکفیری فتوے دیے جاتے ہیں یا نفرت کے اظہار کے لئے درو دیواروں پر نفرت انگیز نعرے لکھے جاتے ہیں ۔مادری زبانوں سے محبت اور بھائی چارے اور کلچر کے فروغ کے لئے کام لینا اداروں کا کام ہے جو نہیں کیا جا رہا ہے اس کی بجائے درسی کتب و رسائل اور اخبارات کے ذریعے نفرت اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
مادری زبان کی اہمیت کا اندازہ مجھے بیرون ملک میں ہوا۔ جرمنی آج دنیا کے بہترین ممالک میں سر فہرست ہے جہاں انسانی زندگی سب سے زیادہ محفوظ ہے۔ اور معاشی، سائنسی،تاریخی اور مذہبی رواداری میں اس ملک کا کوئی ثانی نہیں۔ جرمن فرد کے ساتھ اپنی زبان کے ساتھ عقیدت و محبت ناقابل بیان ہے آج کے جرمنی کی طاقت کا راز اس کی مادری زبان ہے ۔ اس ملک میں قیام کے لئے جرمن زبان ناگزیر ہے۔ جرمن قوم کی اکثریت اپنی قومی زبان میں بات کرنا پسند کرتی ہے ۔جرمن زبان کا ہی ہر طرف راج نظر آتا ہے مارکیٹوں ، بازاروں اور بڑی بڑی اہم شاہراؤں، ریلوے اسٹیشنوں، ائیر پوٹوں اور ایسے ہی دیگر مقامات پر
اشتہارات اور راہنمائی کے سائن بورڈز سبھی جرمن زبان میں لکھے ہوئے ملتے ہیں۔شادو نادر ہی کہیں انگریزی زبان میں لکھا نظر آئے گا انگریزی زبان میں کوئی اخبار اور میگزین نہیں ملے گا کتابوں کی دوکانوں میں سب کتابیں میگزین جرمن زبان میں دستیاب ہوتی ہیں۔ انگریزی زبان میں کسی کتاب یا اخبار کا حصول آسان نہیں ہے۔ میری ذاتی مشاہدہ میں بھی یہ بات بار بار آئی کہ بڑی عمر کے جرمن شہری انگریزی زبان جاننے کے باوجود بھی وہ بات انگریزی زبان میں بات کرنا پسند نہیں کرتے ۔ ایک بار ریلوے میں سفر کے دوران ٹکٹ چیکر سے بات کرنا پڑی تو اس نے بات ہی نہ کی لیکن انگریزی میں یہ ضرور کہا کہ ہم سے بات کرنے کے لئے جرمن زبان سیکھو ۔ اس پر میں نے بہت سے جرمن بوڑھوں اور نوجوان طالب علموں سے بات کہ تو پتہ چلا کہ کچھ ہی عرصہ ہوا ہے کہ جرمن سکولوں میں انگریزی زبان پڑہائی جانے لگی ہے لیکن پرانے وقتوں میں انگریزی نہیں پڑہائی جاتی تھی اسی لئے اکثر بوڑھے انگریزی زبان سے نابلد ہیں موجودہ نسل کے طالب علم اور نوجوان اب انگریزی میں بھی باتیں کرنے لگے ہیں اس سے کم از کم دوسری اقوام کے لوگوں کے لئے کچھ آسانی پیدا ہوئی ہے لیکن مارکیٹوں میں جانے اور دیگر عوامی مقامات میں گھومنے پھرنے کے لئے زبان ایک بڑامسئلہ ہے ٹیکسی اور بس میں سفر کریں تو بھی مصیبت کہ منزل مقصود تک کیسے پہنچیں۔
جرمنی میں طویل قیام کے لئے جرمن زبان کا سیکھنا بہت ضروری ہے اس کے بغیر آپ کو قدم قدم پر بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اسی لئے جرمن حکومتیں اپنے ملک میں طویل قیام کے لئے جرمن زبان کے سیکھنے کولازمی قرار دیتی ہیں۔ طالب علموں کو باقاعدہ تعلیم کے حصول کے لئے جرمن زبان کا کورس کرنا پڑھتا ہے۔ جرمن زبان کی اہمیت کا اندازہ خود حکومتی اور ریاستی پالیسیوں اور دیگر اقدامات کے ذریعے بھی ہوتا ہے ۔جرمن زبان سکھانے کے ادارے اور سکولوں کی تعداد بہت زیادہ ہے بہت سے فلاحی ادارے اور این جی اوز بھی ان غیر ملکیوں کو مفت یا برائے نام فیس کے ساتھ جرمن زبان سکھاتی ہیں پناہ گزینوں کے لئے ان کے رہائشی مقامات پر ہی زبان سکھانے کے انتظامات موجود ہیں اور ہفتہ میں ۴ دن کی کلاسز میں جرمن زبان پڑہائی جاتی ہے۔اس وقت جرمنی میں لاکھوں کی تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد کے ساتھ ہی اس حوالے سے بھی حکومتی اقدامات میں بہت تیزی آگئی ہے اور پورے جرمنی میں لاکھوں پناہ گزینوں کوجرمنی معاشرہ کا فعال شہری بنانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر زبان سکھانے کے اقدامات کئے گئے جرمن زبان سکھانے کے سب سے بڑے ادارے گوئٹے انسٹیٹیوٹ نے فعال کردار ادا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے ۔ یاد رہے کہ گوئٹے انسٹیٹیوٹ کے اس وقت98 ممالک میں159شاخیں موجود ہیں جو وہاں جرمن زبان سکھارہی ہیں عالمی سطح پر معاشی، تعلیمی اور سائنسی ترقی اور اندرونی سیاسی استحکام کے لئے مادری زبان میں تعلیم ناگزیر ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button