لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ
اسلام آباد 26 اگست 2017
(بشیر باجوہ بیورو چیف پاکستان نیوز وائس آف کینیڈا)
الحمداللہ، محبتوں اور قربانیوں کی تجدید کا موسم حج ایک بار پھر اپنی وارفتگیوں کے ساتھ لاکھوں عاشقوں اور محبت کے پیاسوں کو سیراب کرنے آگیا ہے۔سفرِ حج محبت کی نہایت ہی دلگداز داستان اور درحقیت وفائے محبت کا امتحان ہے۔ لفظ ’محبت‘ اپنے اندر بے پناہ لذت اور کشش رکھتا ہے۔ یقیناً ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی عنوان سے اِس حسین لفظ کی معنویت سے آگاہ ہوگا۔ سب سے معتبر عنوان ہمارا ایمان ہے جس کی روح، نشانی اور اولین شرط محبت ہی ہے۔ ایمان کا راستہ ہی عشق و محبت کا سفر ہے۔ ایمان کی محبت اور اِس کو ہمارے لیے دل پسند بنا دینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اظہارِ محبت ہے اور جواباً ہماری محبت اِسی ایمان کی محبت کا ثمر ہے۔ایمان لانے والوں کو ہی سب سے زیادہ شدت سے محبت کرنے والا کہا گیا ہے۔ ایمان کی ساری لذت و مٹھاس اِسی دو طرفہ محبت کے دم سے ہے۔’اللہ اُن سے محبت رکھتا ہے وہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں۔‘‘دین کے سارے ہی احکام یعنی نماز، روزہ، زکٰوۃ، حج، جہاد اور اخلاق و معاملات جہاں اللہ کی محبت کے خوبصورت اظہار ہیں وہیں ہمارے لیے اللہ کی محبت کے حصول کے قیمتی ذرائع بھی ہیں۔مگر حج اِن سب میں محبت کی بلند ترین معراج اور ہمہ جہت محبت سے عبارت ہے۔ محبت کی ایسی دو طرفہ آگ کہ ایک جانب آیاتِ بَیّنات کی صورت میں اللہ کی بندے سے محبت کا بے مثل اظہار تو دوسری جانب بندے کا اللہ کی محبت پانے کا انتہائی کامیاب گُر۔ حج کا ایک ایک رکن وفائے محبت کا امتحان اور عقیدت و اخلاص کی اتاہ گہرائیوں کے ساتھ محبوب کے قدموں میں اپنا سب کچھ نثار کردینے کا اعلان ہے۔حج، اللہ کی محبت کا ایسا کرشمہ ہے کہ اُس نے خود لامکان ہوتے ہوئے زمان و مکان کے اسیر بندوں کے لیے مکہ کی غیر آباد وادی میں معمولی سادہ سی عمارت کو ’اپنا گھر‘ کہہ کر اپنے بندے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے عاشقوں کے جذبۂ محبت کی تسکین کا سامان کیا جو وفائے محبت کے ہر امتحان میں سرخروئی کی کامل ترین تصویر تھا۔حضرت شاہ عبدالعزیزؒ مناسکِ حج اعمالِ عشق و محبت کو سنتِ ابراہیمی کا ورثہ کہتے ہوئے تصویر کشی کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے بندوں کو حکم دیا گیا کہ سال میں ایک مرتبہ اپنے آپ کو اللہ کی محبت میں سر گشتہ و شیدا بناؤ، اُس کے دیوانے ہوجاؤ اور عشاق کے طور طریقے اختیار کرو۔ محبوب کے گھر کے لیے ننگے پاؤں، الجھے ہوئے بال، پریشان حال، گرد میں اٹے ہوئے سر زمینِ حجاز پہنچو اور وہاں پہنچ کر کبھی پہاڑ پر چڑھو، کبھی وادی میں دوڑو تو کبھی محبوب کے گھر کی طرف رُخ کرکے کھڑے ہوجاؤ۔ اُس خانۂ تجلّیات کے دیوانہ وار چکر لگاؤ اور اُس کے در و دیوار کو چومو اور چاٹو۔یہ سارے اعمال ہی ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں اور سیدنا ابرہیم علیہ السلام اِس رسمِ عاشقی کے گویا بانی ہیں۔ بلاشبہ، حج کا ہر رکن محبت کا درس اور ہر مقام محبت کی درس گاہ ہے۔ اللہ کے گھر کے مہمان لباسِ دنیا ترک کرکے سلے کپڑوں کے بجائے دو کپڑوں کے کفن نما لباس احرام باندھ کر دیارِ محبوب کا رخ کرتے ہیں تو دل کی گہرائیوں سے ترانۂ محبت بلند کرتے ہیں:لبیک اللّٰھم لبیک، حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں۔لبیک لاشریک لک لبیک، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔ان الحمد و النعمۃ، بے شک حمد تیرے ہی لائق ہے، ساری نعمتیں تیری ہی دی ہوئی ہیں۔لک والملک، بادشاہی تیری ہی ہے۔لاشریک لک، تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔