کالم,انٹرویو

*لاہوری رنگ باز*

اکبر اور شاہ جہاں کے دور میں لاہور نیل کی دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہوتا تھا۔
شہنشاہ اکبر نے لاہور کے قلعے سے ذرا فاصلے پر ہندوستان میں نیل کی پہلی باقاعدہ منڈی قائم کی، یہ منڈی اکبر کے نام پر اکبری منڈی کہلائی، لاہور کے مضافات میں میلوں تک نیل کے پودے تھے، لوگ ان پودوں کا ست نکالتے تھے، ست کو بڑی بڑی کڑاہیوں میں ڈال کر پکایا جاتا تھا، اس کا پاؤڈر اور ڈلیاں بنائی جاتی تھیں، یہ ڈلیاں ٹوکریوں اور بوریوں میں بند ہو کر اکبری منڈی پہنچتی تھیں، تاجروں کے ہاتھوں بکتی تھیں، گڈوں کے ذریعے ممبئی (پرانا نام بمبئی) اور کولکتہ (پرانا نام کلکتہ) پہنچتی تھیں، وہاں سے انھیں فرانسیسی اور اطالوی تاجر خریدتے تھے، جہازوں میں بھرتے تھے، یہ نیل بعد ازاں اٹلی کے ساحلی شہر جنوا (Genoa) (یہ شہر جنیوا نہیں ہے) پہنچ جاتا تھا، جنوا فرانسیسی شہر نیم کے قریب تھا، جنوا اطالوی شہر ہے جبکہ نیم فرانسیسی، دونوں قریب قریب واقع ہیں، نیم شہر ڈی نیم کہلاتا ہے، ڈی نیم میں ہزاروں کھڈیاں تھیں، ان کھڈیوں پر موٹا سوتی کپڑا بُنا جاتا تھا۔
یہ کپڑا سرج کہلاتا تھا، سرج کپڑا بن کر جنوا پہنچتا تھا، جنوا کے انگریز اس کپڑے پر لاہور کا نیل چڑھاتے تھے، کپڑا نیلا ہو جاتا تھا، وہ نیلا کپڑا بعد ازاں درزیوں کے پاس پہنچتا تھا، درزی اس سے مزدوروں، مستریوں اور فیکٹری ورکرز کے لیے پتلونیں سیتے تھے، وہ پتلونیں بعد ازاں جنوا شہر کی وجہ سے جینز کہلانے لگیں، جینز پتلونیں مشہور ہو گئیں تو ڈی نیم شہر کے تاجروں نے جوش حسد میں اپنے کپڑے کو ڈی نیم کہنا شروع کر دیا، یہ ڈی نیم کپڑا آہستہ آہستہ ’’ڈینم‘‘ بن گیا، جینز اور ڈینم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکٹھے ہوئے اور یہ ڈینم جینز بن گئے۔
جینز کے تین عناصر تھے، ڈی نیم کا کپڑا، لاہور کا نیل اور جنوا کے درزی، مغلوں کے دور میں اگر لاہور کا نیل نہ ہوتا تو شاید جینز نہ بنتی اور اگر بنتی بھی تو کم از کم یہ نیلی نہ ہوتی، جینز کا نیلا پن بہرحال لاہور کی مہربانی تھا، آپ آج بھی انگریزی کی پرانی ڈکشنریاں نکال کر دیکھ لیں، آپ کو ان ڈکشنریوں میں نیل کا نام لاہوری ملے گا، گورے اس زمانے میں نیل کو لاہوری کہتے تھے، یہ رنگ بعد ازاں انڈیا کی مناسبت سے انڈیگو بن گیا۔
فرانسیسی، اطالوی، پرتگالی اور ڈچ نیل کے لئے ہندوستان آتے تھے جب کہ برطانوی افیون کے لئے یہاں آئے اور پھر پورا ہندوستان ہتھیا لیا، لیکن یہ بعد کی باتیں ہیں، ہم ابھی اس دور کی بات کر رہے ہیں جب نیل لاہور کی سب سے بڑی تجارت تھا اور یہ لاہوری اور انڈیگو کہلاتاتھ۔ یہ ہزاروں میل کا زمینی اور سمندری فاصلہ طے کر کے جنوا پہنچتا تھا، جینز کا حصہ بنتا تھا اور پوری دنیا میں پھیل جاتا تھا لیکن پھر لاہور کے لاہوری نیل کو نظر لگ گئی۔ مغلوں نے نیل پر ٹیکس لگا دیا، یورپ نے مصنوعی رنگ ایجاد کر لئے اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے فرانسیسیوں، اطالویوں اور پرتگالیوں کو مار بھگایا اور یوں نیل کی صنعت زوال پذیر ہو گئی۔
لاہوری لاہوری نہ رہا مگر لاہور کے شہری آج بھی رنگ باز ہیں، لاہوریوں کو یہ خطاب ممبئی اور کولکتہ کے تاجروں نے دیا تھا، ہندوستان میں اس وقت فارسی زبان رائج تھی، فارسی میں کسی بھی پیشے سے وابستہ لوگوں کو باز کہا جاتا تھا ہے مثلاً بیورو کریٹ کو فارسی میں کاغذ باز کہا جاتا ہے اور کبوتر پالنے والوں کو کبوتر باز، اس مناسبت سے رنگ بیچنے والے رنگ باز ہو گئے۔ چنانچہ کولکتہ اور ممبئی کے تاجر نیل کی صنعت سے وابستہ لاہوریوں کو ’’رنگ باز‘‘ کہنے لگے، اس زمانے میں کیونکہ لاہور کی زیادہ تر آبادی نیل کی صنعت سے وابستہ تھی چنانچہ پورا لاہور رنگ باز ہو گیا، یہ رنگ بازی آج بھی لاہوری مزاج میں زندہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button