اسلام آباد: ہائی کورٹ نے لاپتہ شخص کی بازیابی سے متعلق درخواست کی سماعت میں کہا ہے کہ آئی جی پولیس کو ذمہ دار ٹھہرانے سے نظام ٹھیک ہوجائے گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئی ٹی ایکسپرٹ ساجد محمود کی گمشدگی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔ ساجد محمود کی اہلیہ مائرہ ساجد نے عدالت سے شوہر کو بازیاب کرانے کی استدعا کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکومتی جے آئی ٹی نے رپورٹ دی ہے کہ ساجد محمود کو ریاستی ادارے نے اغوا کیا، بتایا جائے کہ ملک میں کتنی انٹیلی جنس ایجنسیز ہیں؟، کیا عدالت اپنے فیصلے میں یہ لکھے کہ یہ واقعہ ایجنسیز کی ناکامی ہے، تین ماہ تک ساجد محمود کے لاپتہ ہونے کی ایف آئی آر نہیں درج ہوئی، کیا ایجنسیاں اس کی ذمہ دار نہیں؟، ایک ایس ایچ او کو ذمہ دار قرار دے کر معمولی سزا دے دی گئی، کیوں نہ ایس ایچ او کی بجائے وزیراعظم، سیکرٹری ڈیفنس اور آئی جی کو سزا دی جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت لاپتہ افراد کو ڈھونڈ نہیں سکتی بلکہ اس کا کام یہ تعین کرنا ہوتا ہے کہ ذمہ دار کون ہے، یہ آئی جی کی نا اہلی ہے کہ اس کو پتہ نہیں اس کے نیچے ایس ایچ او کیا کر رہا ہے، خدانخواستہ اگر آئی جی کے بچے کو کچھ ہو جاتا ہے تو کیا وہ ایسے ہی بیٹھے رہیں گے؟۔
ہائیکورٹ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے لاپتہ شہری ساجد محمود کے گھر کے اخراجات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ چیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور آئی جی سے لاپتہ شہری کے گھر کے اخراجات وصول کیے جائیں، جب آئی جی پر ہر لاپتہ ہونے والے شخص کی ذمہ داری ڈالی جائے گی تو نظام خود بخود ٹھیک ہو جائے گا، کیونکہ اگر آئی جی کو معلوم ہو کہ اس کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا تو وہ ایسا کچھ نہیں ہونے دے گا۔
عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو اگلی سماعت میں دلائل مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 12 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت آخری ہو گی، اس کیس کو مزید طول نہیں دینا چاہتے، ڈپٹی اٹارنی جنرل خالد محمود راجہ، ڈی ایس پی لیگل اظہر شاہ، ایس ایچ اور تھانہ شالیمار منیر جعفری اور تفتیشی افسر عالمگیر خان عدالت میں پیش ہوئے۔