فیصلے کی گھڑی
کالم:- طارق حسین بٹ شانؔ
میاں محمد نواز شریف کی نا اہلی کے عدالتی فیصلے کے بعد عدلیہ انتہائی دباؤ میں ہے جس کا مظاہرہ ہم نے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کے حالیہ خطاب میں محسوس کیا ہے۔انھوں نے اپنے خطاب سے اس تاثر کو دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کی کہ عدلیہ کسی دباؤ کے بغیر فیصلے صادر کرتی ہے لیکن ا س کے باوجود ان کے خطاب سے یہی مترشح ہوا کہ عدلیہ شدید دباؤ میں ہے وگرنہ ان کا لہجہ اتنا تلخ نہ ہوتا۔کیا یہ ان کے شایانِ شان تھا کہ وہ اس طرح کا بیان کھلے عام دیتے جس سے عدلیہ مزیدتیروں کی زد میں آ جاتی۔ہماری ملک کی عدالتی روائت تو یہی رہی ہے کہ ججز نہیں بولتے بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں لیکن چیف جسٹس کے خطاب سے ہمیں اس روائت سے رو گردانی ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔چیف جسٹس کے خطاب کے بعد میڈیا، سیاستدانوں، ماہرینِ قانون،تجزیہ کاروں، کالم نگاروں اور دانشوروں نے اس خطاب کا پوسٹ مارٹم شروع کر دیا ہے جس سے عدلیہ کو مزید متنازع بنانے کی دوڑ شروع ہو گئی ہے۔ پہلے تو مسلم لیگ (ن) ہی عدلیہ کے خلاف مورچہ زن تھی لیکن اب اس میں پی پی پی کی آواز بھی شامل ہو گئی ہے جو پرانے فیصلوں کو بنیاد بنا کر عدلیہ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔وہ اب بھی یہی سمجھتی ہے کہ عدلیہ پی پی پی کے خلاف خصوصی رویے اختیار کرتی ہے جس سے پی پی پی کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ اگر پی پی پی کی اس طرح کردار کشی نہ کی جاتی تو شائد پی پی پی ۳۱۰۲ کے انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی۔اس کے لئے وہ ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن کے علاوہ پی پی پی کی اعلی قیادت کے خلاف روارکھے گئے رویوں کا ذکر کرتے ہیں۔ان کا استدلال یہ ہے کہ نیب زدہ ہونے کے باوجود میاں محمد نواز شریف اور ان کے حواریوں کو نہ تو ای سی ایل پر ڈالا جاتا اور نہ ہی انھیں گرفتار کیا جاتا ہے جبکہ پی پی پی کے جیالوں کو سرِ عام گھسیٹا جا تا ہے جس سے عدلیہ کی جانبداری کے بارے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔ابھی یہ تلخی اپنی جگہ پر قائم تھی کہ جہانگیر ترین کی نا اہلی کے حالیہ فیصلے نے عدلیہ کی سب سے چہیتی جماعت پی ٹی آئی کے دلوں میں بھی تحفظات کو جنم دینا شروع کر دیا۔ان کا بیانیہ اگر چہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی جیسا نہیں ہے ہے لیکن ان کے بیانات سے بھی یہی عیاں ہو رہا ہے کہ ان کے ساتھ ا نصاف نہیں ہوابلکہ میاں برادران کو خوش کرنے کیلئے جہانگیر ترین کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے،عمران خان کے بقول جہانگیر ترین ایک انتہائی صاف اور شفاف شخصیت کے مالک ہیں لیکن انھیں ٹکنیکل بنیادوں پر ناک آؤٹ کیا گیا ہے جو کہ انصاف کی حقیقی روح کے منافی ہے۔پی ٹی آئی نے عدلیہ کے حالیہ فیصلے کو چیلنج کرنے کا بھی اعلان کر رکھا ہے لہذا عدلیہ کے خلاف جاری یہ جنگ ابھی تھمتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔،۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ۳ ۱۰۲ کے انتخابی نتائج کے اعتبار سے میاں محمد نواز شریف اس ملک کے سب سے مقبول لیڈر ہیں لہذا ان کی نااہلی نے پاکستان میں ایک طوفانی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔اب نئے مقبول ترین لیڈر کا فیصلہ ۸۱۰۲ کے انتخابات میں ہو جائیگا۔کسی کی مقبولیت کے باعث اس کے اندازِ سیاست سے متفق ہونے کا قطعا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا۔سیاست چونکہ اختلافِ رائے کا نام ہے لہذا پی پی پی اور پی ٹی آئی میاں برادران کے اندازِ سیاست کے سب سے بڑے ناقد ہیں اور انھیں آئیندہ انتخابات میں شکست سے دوچار کرنے کیلئے بڑے بے تاب ہیں۔بہر حال پاناما سے شروع ہونے والا قضیہ جب اقامہ پر اختتام پذیر ہوا اور میاں محمد نوز شریف کی ناہیلی کا فیصلہ سامنے آیا تو ان کیلئے اسے قبول کرنا ممکن نہیں تھا۔شائد یہی وجہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے تلخ لہجے کی بازگشت ہر سو سنائی دے رہی ہے اور وہ پورے عدالتی نظام کو بدل دینے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔انھوں نے عدالتی نظام کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ان کی یہ تحریک کیا رنگ لائے گی ابھی تک اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ایک بات بہر حال طے ہے کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ میاں محمد نواز شریف کے موقف سے کافی پریشان ہیں۔عدلیہ کی پریشانی کا مظاہرہ تو چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کے جذباتی اظہار میں دیکھا جا سکتا ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ کی بے چینی کو بھی واضح طور ہپر محسوس کیا جا سکتا ہے۔عدلیہ کے خلاف جو سب سے بڑا اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے لہذا اسے کسی بھی مقدمے میں ڈائرکٹ فیصلہ سنانے کی بجائے متعلقہ فورم کے حوالے کرنا چائیے تا کہ ملزم کے پاس اپیل کا حق باقی رہے۔ویسے یہ حیران کن امر ہے کہ ایک عام شہری کو تو اپیل کا حق دیا جائے لیکن اس ملک کے وزیرِ اعظم،وزرا اور بڑی سیاسی جماعت کے جنرل سیکرٹری کو اپیل کے حق سے محروم کر دیا جائے۔ مجرم ثابت ہو جانے سے متعلقہ شخصیت کی سیاسی زندگی اختتام پذیر ہو جاتی ہے کیونکہ عدالت اس سے اپیل کا حق چھین لیتی ہے۔ میری ذاتی رائے کہ عدالتوں کو تمام مقدمات متعلقہ آئنی فورمز کے حوالے کرنے چائیں تا کہ گواہوں کے بیانات اور دوسری دستا ویز کی شفافیت کی جانچ پڑتال بہتر انداز میں ہو سکے اور جب متاثرہ فریق اپیل کیلئے اعلی عدلیہ کے سامنے پیش ہو تو اسے علم ہو کہ اس نے اپنے خلاف فیصلے کا دفاع کس طرح کرنا ہے۔ میاں محمد نواز شریف اقامہ پر نا اہل ہوئے اوران کے مقدمے میں جس طرح اثاثہ کی تعریف کو بنیاد بنا کر فیصلہ صا در کیا گیا ہو سکتاہے کہ اس تعریف سے دوسرے ججز متفق نہ ہوتے۔اپیل کا حق انصاف کی اصلی روح ہے لیکن اسے حالیہ فیصلوں میں بری طرح سے قتل کیا گیا ہے۔ جہانگیر ترین اور میاں محمد نواز شریف اس کا حالیہ شکار ہوئے ہیں لہذا میں ایسی قانون سازی کو خارج از امکان قرار نہیں دے سکتا جس میں اس طرح کی کاروائی پر قدغن لگا دی جائے۔،۔
عدلیہ کسی بھی معاشرے کا سب سے معتبر ادارہ ہوتا ہے لہذا اس کی عزت اور توقیر پر کسی بھی طرح سے حرف نہیں آنا چائیے۔اگر کسی ملک کی عدلیہ پر عوام کا اعتماد اٹھ جائے تو معاشرہ جنگل کا روپ دھار لیتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ عدلیہ کے سارے فیصلے سب کو قابلِ قبول ہوں لیکن اگر فیصلوں میں جانبداری کی بو نہ آتی ہو تو فیصلوں کا احترام قائم رہتا ہے لیکن اگر ایسا نظر آئے کہ ایک فریق کو جان بوجھ کر دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو پھر عدلیہ اپنا وقار کھو بیٹھتی ہے۔میاں محمد نواز شریف کا یہ اعتراض تو بہرحا ل وزنی ہے کہ نیب کے سروں پر سپریم کورٹ کے نگران جج کا تقرر انھیں مجرم ثابت کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔غیر جانبدار ماہرینِ قانون کے مطابق نگران جج کا تقرر قانون و انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔ نگران جج کی تقرری کے حکم سے نیب کی اپنی حیثیت ختم ہو کر رہ گئی ہے او وہ نگران جج کے احکامات کو بجا لانے کی ایک مشین بن گئی ہے۔وہ معزز جج جس نے میاں محمد نواز شریف کے خلاف فیصلہ صادر کیا ہو اب اگر وہی نیب عدالت کے اوپر بھی مسلط ہو گا تو کیا انصاف ہو تا ہوا نظر آئے گا؟پاکستان کی ۰۷ سالہ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی بھی مقدمے میں فیصلہ صادر کرنے والا جج نیب میں نگران جج کے فرا ئض بھی سر انجام دیتا ہو۔یہی ہے وہ نکتہ جس نے میاں محمد نواز شریف کو آگ بگولہ کر رکھا ہے اور وہ اس کا تدارک چاہتے ہیں۔سوال میاں محمد نواز شریف کا نہیں ہے بلکہ سوال اس اصول کا ہے جس سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ کیا جو چہرہ پسند نہ ہو یا جسے اسٹیبلشمنٹ نا پسندیدہ قرار دے ڈالے اسے بے رحمی سے ذبح کر دیا جائے؟ انصاف اپنے محور میں رہے تو اچھا لگتا ہے وگرنہ عوام ایسے انصاف کا مذا ق اڑ اتے ہیں۔عدلیہ کے پاس طاقت ہے اور ریاست اس کی طاقت کے سامنے سرنگوں ہے لیکن کیا عدلیہ کی یہ طاقت کسی ضابطے اور قانون کی پابند ہوگی یا کہ نہیں؟میاں محمد نواز شریف کی جنگ اسی نکتے پر مرکوز ہے۔اب س بات کا حتمی فیصلہ ہو جانا چائیے کہ منتخب وزیرِ اعظم کا مقدر احترام ہو گا یا ذلت و رسوائی؟۔،۔