غریب قوم ہی قابلِ ملامت کیوں ٹھہرے۔
آئل ٹینکر کے افسوسناک سانحے کئ
حضرات تقریباً ملامتی لہجوں کے ساتھ غربت، اور خاص طور پر اس طبقے اور بالعموم اس قوم میں تربیت کے فقدان پر محمول کر رہے ہیں۔
ایک بات تو یہ کہ حادثہ بہت المناک ہے، مگر کیا یہ بات ممکن نہیں کہ اتنے سارے لوگوں کو ان کی قضا ایک ساتھ وہاں کھینچ لائ تھی۔
باقی رہی بات تربیت کی، تو قوموں کی تربیت کا ماُخذ و منبع تین ستونوں پر قائم ہوتا ہے :-
پہلا، خاندانی نظام – جس کا شیرازہ بکھرتا ہوا ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ نانا نانی، دادا دادی، چچا ماموں، پھوپھیاں خالائیں تو سب دور ہوگئے، جس ماں کی گود سے تربیت کا نظام قدرتاً شروع ہوتا ہے وہی مارڈنائیزیشن کا شکار ہو کر بچوں کو پالنے یا ان کی تربیت کرنے کو اپنی ذاتی ترجیحات کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے، تو یہ سلسلہ تو بفضلِ خدا ختم سمجھئیے۔
دوسرا، نظامِ تعلیم – سو اس نقل زدہ، سسکتے بلکتے نظام کے تابوت میں گویا آخری کیل استاد کا احترام ختم کر کے ٹھونک دی گئی ہے۔ اب یہ کوئ مقدس پیشہ نہیں، بلکہ صرف "پیشہ” ہے جس کے ایک طرف پیسہ خرچنے والے کی اکڑ کہ ریٹرن ملنا چاہئیے، دوسری طرف پیشہ ور اساتذہ کی پیسہ کمانے کی دھن۔ سو یہ بھی قریب المرگ ہی ٹھہرا۔
تیسرا، قوم کے عمائدین، اہلِ علم حضرات اور سیاسی و مذہبی قائدین – تو الحمدللہ میڈیا کی برکت سے "میں چور، تو ڈاکو” اور "میرا حق، تیرا فرض” اور "میرا عقیدہ، تیرا پلیدہ” کے شور و فغاں نے عام عوام کے ذہنوں سے ہر ایک کی وقعت اور دلوں سے ہر ایک کا احترام مٹا ڈالا ہےجس میں کافی ہاتھ خود ان حضرات کی صفوں میں شامل کچھ دنیا پرست و دین فروش قسم کے لوگوں کا بھی ہے۔ سو ان تلوں کا تیل یا تو ختم ہے یا اتنا باسی کہ چراند کی وجہ سے قابلِ استعمال نہیں، اور باقی وضعدار، دیندار طبقہ بھی ان کی وجہ سے اب عوام کی نظر میں اپنی جائز حیثیت و وقعت سے محروم اور مشکوک ٹھہرا۔
آخری عرض یہ ہے کہ ٹینکر سے بہتا تیل ہو یا پروگراموں میں بٹتے، بلکہ "پھینکے جاتے” انعامات، دونوں کو لوٹنے میں انسانی اقدار و احترام کی دھجیاں ایک سی بکھرتی ہیں، پھر یہ غریب قوم ہی قابلِ ملامت کیوں ٹھہرے۔ آخرالذکر کو تو وہ لوگ بھی بڑے ذوق وشوق سے ٹائم پاس کے لئیے دیکھتے ہیں جو بعد میں زور و شور سے اسے برا بھلا کہتے ہیں۔