لاہور 18اپریل 2018ء
(ذرائع نیوز وی او سی) .www.newsvoc.com
.ایک قانون دان کی حیثیت سے ہر لمحہ ہر پل طاہر القادری صاحب اپنے وکلاء کی خود رہنمائی فرما رہے ہیں.ملزمان اور عدالتوں کو حیران کر دینے والے عوامی تحریک کی طرف سے ٹھوس ثبوت پیش کئے جا رہے ہیں.اگر ان ثبوتوں اور شواہد کی بنیاد پر آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ ہو تو شریف خاندان اور ان کے درباریوں کو پھانسی سے کوئی نہین بچا سکتا.ایک دن کی کاروائی ملاحظہ فرمائیں.
انسداد دہشتگردی عدالت لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس ٹرائل کے دوسرے دن بھی مستغیث جواد حامد کا بیان جاری رہا، جواد حامد نے ملزمان کی موجودگی میں کمرہ عدالت میں اپنی شہادت قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن محض حادثہ نہیں منصوبہ بندی کے مطابق ہوا ۔ڈاکٹر طاہرالقادری کی وطن واپسی رکوانے کیلئے وزیراعلیٰ ہاؤس سے خرم نواز گنڈاپور، فیاض وڑائچ اور الطاف حسین گیلانی کو ٹیلیفون آیا کہ گاڑی بھیج رہے ہیں آپ ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن آئیں اور پھر سرکاری گاڑی پر تینوں عہدیداروں کو ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن لے جایا گیا جہاں نواز شریف، شہباز شریف ،رانا ثناء اللہ، حمزہ شہباز، ڈاکٹر توقیر شاہ،رانا ثناء اللہ، خواجہ آصف، پرویز رشید، عابد شیر علی بیٹھے تھے انہوں نے خرم نواز گنڈاپور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی وطن واپسی ملتوی کروائیں جس پر خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ ان کی آمد کا شیڈول حتمی ہے جس پر نامناسب الفاظ استعمال کرتے ہوئے دھمکی دی گئی،اس نامناسب رویے پر خرم نواز گنڈاپور، فیاض وڑائچ اور الطاف حسین گیلانی اٹھ کر آگئے۔ جواد حامد کے اس بیان پر کمرہ عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ جواد حامد نے اپنی شہادت قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلا قتل ایس پی سلیمان نے کیا، انہوں نے حکیم صفدر کو براہ راست گولیاں مار کر موقع پر قتل کر دیا، اس وقت کے ایس پی طارق عزیز کے حکم پر ان کے گن مین کانسٹیبل نثار نے شازیہ مرتضیٰ کو برسٹ مار کر قتل کیا، ڈی آئی جی رانا عبدلجبار کے حکم پر ان کے گن مین عابد حسین نے تنزیلہ امجد کو قتل کیا، ایس پی عبدالرحیم شیرازی نے ڈائریکٹ فائرنگ کر کے عاصم حسین کو قتل کیا، اس وقت کے ایس پی عمر ورک نے براہ راست گولیاں مار کر خاور نوید کو قتل کیا، عبدالرؤف سب انسپکٹر نے ایس پی علی عثمان کے حکم پر شہباز علی کو گولیاں ماریں اور موقع پر قتل کر دیا، ایس ایچ او شیخ عاصم کی فائرنگ سے عمر رضا قتل ہوا، عمران کرامت ڈی ایس پی نے رضوان خان کو گولیاں مار کر قتل کیا، عامر سلیم شیخ ایس ایچ او نے غلام رسول کو قتل کیا، عبداللہ جان ڈی ایس پی نے فائرنگ کر کے صوفی اقبال کو قتل کیا، جواد حامد کی شہادت پر کمرہ عدالت میں موجود ملزمان کے رنگ زرد پڑ گئے، ملزمان کے وکلاء نے بار بار مستغیث جواد حامد کے قریب آ کر اس کے کانوں کو ہاتھ لگا کر دیکھتے رہے کہ اتنا تفصیلی بیان آیا کہیں وہ ریکارڈ شدہ تو نہیں بیان کررہے جس پر جواد حامد نے متعدد بار اے ٹی سی جج کی توجہ حاصل کی اور ملزمان کے وکلاء کی طرف سے ڈسٹرب کرنے پر احتجاج کیا۔ آج 18 اپریل کو بھی جواد حامد اپنا مزید بیان قلمبند کروائیں گے۔ بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جواد حامد نے کہا کہ ہم نے رانا ثناء اللہ ،سعد رفیق کے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے قبل دھمکی آمیز بیانات کا سارا ریکارڈ عدالت میں جمع کروا دیا ہے ،رانا ثناء اللہ،سعد رفیق کی دھمکیاں ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا پس منظر سیاسی تھا اور یہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا۔ جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا بیان کر دیا، پوری دنیا جانتی ہے کہ سینکڑوں پولیس والے غیر قانونی طور پر ماڈل ٹاؤن میں جمع ہوئے ۔