Draft

عالمی یوم سیاحت پر اسلام آباد سٹی بس سروس شروع کی جائے گی

اسلام آباد 10 اکتوبر
(بیورو چیف پاکستان بشیر باجوہ نیوز وائس آف کینیڈا)
وفاقی دارالحکومت میں خواتین یونیورسٹی قائم کی جا رہی ہے‘ شکرپڑیاں میں پی ٹی ڈی سی کی 25 ایکڑ اراضی پر صحت افزا مقام قائم کرنے کی تجویز زیر غور ہے ،ْ وفاقی وزراء پی آئی اے کے ہوائی جہاز کو اپنے ہمراہ جرمنی لے جانے کے حوالے سے سوال مزید تفصیلات کے لئے موخر کردیا گیا پانچ سالوں کے دوران سندھ کے مختلف اضلاع کے طلباء کو مجموعی طور پر 25 ہزار 338 وظائف دیئے گئے ہیں ،ْانجینئر بلیغ الرحمن
قومی اسمبلی کوبتایاگیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں خواتین یونیورسٹی قائم کی جا رہی ہے‘ عالمی یوم سیاحت پر اسلام آباد سٹی بس سروس شروع کی جائے گی ،ْشکرپڑیاں میں پی ٹی ڈی سی کی 25 ایکڑ اراضی پر صحت افزا مقام قائم کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ پیر کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ موضوع سے ہٹ کر ہے تاہم آبادیوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ہم نے تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
وزیر اعظم سکیم کے تحت 22 سکولوں کی اپ گریڈیشن کی ہے اور 200 پر کام جاری ہے۔ اب فیز تھری میں کام ہو رہا ہے اور سکولوں کو اپ گریڈ کیا جارہا ہے۔ بھارہ کہو میں ڈگری کالج‘ سہالہ میں لڑکوں کے کالج اور جی 13 کالج کا پی سی ون بن چکا ہے۔ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمارتوں کے رنگ و روغن سے تعلیم کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا ہم ہم نے ایسے اقدامات کئے ہیں جس کے تحت پرائیویٹ سکولوں کے لوگ سرکاری اداروں میں آرہے ہیں۔
2.7 ارب روپے سے منصوبہ جاری ہے۔ ان اقدامات کی بدولت تعلیمی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔ سیکیورٹی پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ بچیوں کے سکولوں میں بھی کمپیوٹر لیب بنائے جارہے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم نے 70 سے زائد مونٹیسوری کلاسیں شروع کی ہیں جہاں بچوں کو مفت کتابیں دی جارہی ہیں اور اب ہم بیگ‘ یونیفارم وغیرہ بھی دینے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔
سکول ہیڈ میونوئل بنایا ہے جس میں پرنسپل کیلئے ہدایات ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ اساتذہ کی تربیت کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کو رول ماڈل بنانے کا ہدف دیا تھا اور اب اس ہدف کے حصول کے لئے کام ہو رہا ہے۔ غلام سرور خان کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم کے پروگرام کے بارے میں ابہام موجود ہے۔
اس پروگرام کے تحت 22 سکولوں کی اپ گریڈیشن پر 22 کروڑ روپے لگائے جارہے ہیں۔ اس پروگرام میں غیر ملکی فنڈنگ شامل نہیں یہ سارا پی ایس ڈی پی کا ہے۔ ایک وضاحت ضروری ہے کہ مریم نواز اور مشعل اوباما کی ملاقات اس حوالے سے نہیں تھی۔ وزیراعظم ریفامز سکیم کے تحت ہم نے سائنٹیفک طریقہ کار اختیار کیا ہے اس حوالے سے ہم سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں اور آبادی کے تناسب سے تعلیمی اداروں کو بہتر بنایا جارہا ہے۔
ایف سیون ٹو کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کی بات کی ہے لیکن ہم نے فیصلہ کیا کہ کالج کو اپ گریڈ کیا جائے گا لیکن اسلام آباد میں ایک ویمن یونیورسٹی الگ سے قائم کریں گے۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے بتایا کہ ہم نے مکمل طور پر بتا دیا ہے۔ سیاحت طویل عرصہ سے تنزلی کا شکار تھی۔ امن و امان کی وجہ سے سیاحوں کی آمد میں کمی ہوئی‘ اس لئے جو اقدامات کئے گئے ہیں اس کا مقصد سیاحت کو فروغ دینا ہے۔
فلائنگ کوچ چلتی ہے تو اس میں 22 اور بڑی گاڑی میں 40 سے زائد مسافروں کی گنجائش ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کلب جو بنائے جاتے ہیں اس کا مقصد لوگوں کو راغب کرنا ہوتا ہے۔ شفقت محمود کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انڈور گیمز کھیلے جاسکتے ہیں ‘ کارڈز کھیلے جاسکتے ہیں۔شازیہ مری کے سوال کے جواب میں شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ پی آئی اے کا ایک جہاز تھا جس کو ایک جرمن سی ای او نے اسے مالٹا کی ایک فرم کو 25 نومبر 2016ء میں اس لئے دیا کیونکہ وہ اس پر فلم بنانا چاہتے ہیں۔
جس سے انہوں نے 23.94 ملین روپے کا کرایہ وصول کیا۔ اس کے بعد یہ جہاز جب واپس آیا تو یہ ایک جرمن میوزیم کو بیچا گیا۔ یہ غلط کام ہوا ہے اس نے جہاز بیچا اور اس کی رقم ابھی وصول نہیں ہوئی اور ابھی ایف آئی اے اس کی انکوائری کر رہی ہے۔ اس سوال پر اراکین کی جانب سے بار بار وضاحت طلب کئے جانے پر ڈپٹی سپیکر نے مزید تفصیلات تک سوال موخر کردیا۔ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ پوچھے گئے سوال میں ابہام موجود ہے اس میں ہیپاٹالوجسٹ کا لفظ موجود ہے۔
ہیپاٹالوجسٹ پی ایچ ڈی/ ایم ایس سی تحقیقی ماہرین ہوتے ہیں‘ کلینیکل ڈاکٹر نہیں ہوتے۔ اس وقت پاکستان میں صرف دو ہیپاٹالوجسٹ ہیں جو کراچی کے نجی ہسپتال میں کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام ہسپتالوں میں گیسٹرول انٹرالوجسٹ موجود ہیں جو مریضوں کو طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ شیخ روحیل اصغر کے ضمنی سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پمز ہسپتال میں 92 وینٹی لیٹرز فنکشنل ہیں تاہم اس ہسپتال میں روزانہ صرف او پی ڈی میں 8 سے 10 ہزار مریضوں چیک اپ کے لئے آتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ رکن قومی اسمبلی نجف عباس سیال کو جب ہسپتال میں لایا گیا تو اس وقت تمام وینٹی لیٹر مریضوں کو لگائے گئے تھے‘ پمز کے عملہ نے فوری طور پر شفاء ہسپتال میں رابطہ کرکے انہیں وہاں منتقل کیا اور ان کا علاج چل رہا ہے۔ وہ اب بھی آئی سی یو میں ہیں‘ ہم ان کے لئے دعا گو ہیں۔ انجینئر بلیغ الرحمان نے کہا کہ پی ایچ ڈی‘ ایم ایس اور دیگر سطح پر مختلف وظائف دیئے جاتے ہیں۔
پی ایچ ڈی کے لئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ایک باضابطہ طریقہ کار وضع کیا ہے۔ پی ایچ ڈی ‘ ایم ایس اور دیگر کیٹگریز میں وظائف کے لئے معیار مختلف ہوتا ہے تاہم تمام وظائف میرٹ اور شفاف طریقے سے دیئے جاتے ہیں جبکہ بعض وظائف کے لئے ٹیسٹ بھی منعقد ہوتے ہیں۔ عاقب اللہ خان کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت نے کہا کہ پی ایچ ڈی کے لئے کیریئر میں ایک سیکنڈ ڈویژن کی گنجائش موجود ہوتی ہے تاہم بلوچستان کے لئے قواعد میں نرمی کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور تعلیم کے لئے فنڈنگ میں اضافہ کیا ہے‘ تمام صوبوں کو یکساں بنیادوں پر وظائف دیئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2012-13ء میں تعلیم کے شعبہ کا بجٹ 28 ارب روپے تھا تاہم موجودہ حکومت نے اسے 100 ارب روپے سے زائد کردیا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ پی ایچ ڈی سکالرز سامنے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی شعبے کا فروغ حکومت کی اولین ترجیح ہے اور ہماری کوشش ہے کہ بلوچستان ‘ دیہی سندھ‘ فاٹا اور دیگر دوردراز پسماندہ علاقوں میں تعلیمی سہولیات کو فروغ دیا جائے۔
اجلاس کے دور ان وفاقی وزیر شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ جو طیارے ڈرائی لیز پر لئے جاتے ہیں اس میں عملہ اور مرمت کا کام مقامی طور پر کیا جاتا ہے جبکہ ویٹ لیز پر عملہ ساتھ آتا ہے اور اس کی مرمت بھی طیارے فراہم کرنے والی کمپنی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم ڈرائی لیز پر ایک معاہدہ کریں اور پھر ویٹ لیز کی طرف جائیں۔
انہوں نے کہا کہ جرمنی کے میوزیم میں پی آئی اے کے طیارے کا معاملہ ایک فراڈ ہے جس میں اس وقت کے پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ملوث ہیں۔ اس حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے تحقیقات کر رہا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ نہ تو ہمیں پیسہ ملا ہے اور نہ جہاز واپس کیا گیا ہے‘ اس واقعہ کے جو بھی لوگ ذمہ دار تھے ان کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے، سینیٹ میں اس حوالے سے ایک کمیٹی بھی بنی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے خصوصی کمیٹی قائم کرنے یا معاملہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کرنے کی تجویز بھی دی۔ جس پر ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ یہ کمیٹی کا کام نہیں بلکہ وزارت کا معاملہ ہے‘ اس کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ وزارت کو بھی اس حوالے سے اقدامات کرنے چاہئیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button