طالبان نے افغان جنگ کا اختتام نیٹو فورسز کے ملک چھوڑنے سے مشروط کردیا
(بشیر باجوہ بیورو چیف پاکستان نیوز وائس آف کینیڈا)
امریکا کی جانب سے افغانستان میں فوج کے اضافے سے جنگ ختم نہیں ہوگی، نیٹو فورسز کے افغانستان چھوڑنے تک جنگ جاری رہے گی، ہر سال طالبان کے پیروکاروں میں اضافہ ہورہا ہے،افغان حکومت انتہائی کرپٹ ہے ،اگر وہ قائم رہی تو ملک میں ایک نئی خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے،طالبان کے امیر مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کا عیدالفطر کے موقع پر پیغام
افغان طالبان کے امیر مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے افغانستان میں فوج کے اضافے سے جنگ ختم نہیں ہوگی، نیٹو فورسز کے افغانستان چھوڑنے تک جنگ جاری رہے گی۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق مولوی ہیبت اللہ نے عیدالفطر کے موقع پر جاری ایک پیغام میں کہا کہ ہر سال طالبان کے پیروکاروں میں اضافہ ہورہا ہے۔
اپنے حالیہ پیغام میں طالبان کے امیر نے اپنے موقف میں سختی اپناتے ہوئے کہا کہ افغانستان حکومت انتہائی کرپٹ ہے اور کابل میں 1992 کی طرز کی ایک اور سول جنگ سے خبردار کیا، جب مجاہدین کے گروپوں کو یہاں سے نکال دیا گیا تھا اور افغانستان کی کمیونسٹ حکومت نے ایک دوسرے پر ہتھیار تان لیے تھے، اس تنازع میں 50 ہزار سے زائد شہری ہلاک ہوئے جس نے طالبان کے لیے ملک میں قبضے کی راہ ہموار کی تھی۔
مولوی ہیبت اللہ نے اپنے پیغام میں بڑھتی ہوئی بین الاقوامی حمایت کا دعوی کرتے ہوئے کہا کہ عالمی قوتوں نے طالبان کی کامیابیوں، اثر انداز ہونے کی صلاحیت اور جواز کو تسلیم کیا ہے، یہ دعوی روس، چین اور خود طالبان کی جانب سے خطے میں داعش کے بڑھتے ہوئے کردار پر تشویش کا اظہار کرنے کے حوالے سے ہے۔خیال رہے کہ داعش نے افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار میں کنٹرول حاصل کرنے کے بعد یہاں طالبان کو شدید نقصان پہنچایا جبکہ انھوں نے ملک میں ہائی پروفائل حملے بھی کیے ہیں جن میں کابل میں ہونے والے بم دھماکے بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ رپورٹس کے مطابق داعش شمالی افغانستان میں بھی سرگرم ہوگئی ہے، جبکہ اس گروپ میں ازبک جنگجوں کے شامل ہونے پر ماسکو نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
طالبان کے امیر نے قطر اور سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک کے درمیان شروع ہونے والے تنازع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس معاملے نے تشویش میں مبتلہ کردیا ہے۔یاد رہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سیمت دیگر خلیجی ممالک قطر پر دہشت گردوں کی امداد اور معاونت کا الزام لگاتے آئے ہیں تاہم دوحہ نے ان الزامات مکی تردید کی ہے۔